بغداد میں اتوار کو امریکی سفارت خانے پر تین راکٹ داغے جانے کے بعد واشنگٹن نے عراق پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی سفارتی تنصیبات کی حفاظت کی ذمہ داریاں پوری کرے۔
عراق بھر میں کئی مہینوں سے جاری حکومت مخالف دھرنوں اور پر تشدد احتجاج کے دوران محفوظ رہنے والا امریکی سفارت خانہ اتوار کو پہلی بار براہ راست حملے کا نشانہ بنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تازہ حملے کو حالیہ مہینوں میں ہونے والے راکٹ حملوں میں خطرناک اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ان حملوں میں سفارت خانہ یا وہ عراقی فوجی اڈے ہدف رہے ہیں جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔
ابھی تک کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم واشنگٹن عراق میں ایرانی حمایت یافتہ دھڑوں پر کئی بار ایسے حملوں کا الزام لگا چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کو ایک راکٹ رات کو کھانے کے وقت امریکی سفارت خانے کے کیفے ٹیریا کو لگا جبکہ دو قریبی علاقے میں گرے۔
ایک اعلیٰ عراقی عہدے دار کے مطابق راکٹ حملوں میں کم از کم ایک شخص زخمی ہوا، تاہم فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ زخمی ہونے والا امریکی تھا یا سفارت خانے میں کام کرنے والا کوئی عراقی ملازم۔
امریکی سفارت خانے نے اے ایف پی کی درخواست کے باجود حملے کے حوالے سے تبصرہ نہیں کیا۔
عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی اور پارلیمان کے سپیکر محمد حلبسی نے امریکی سفارت خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے ملک کو جنگ میں گھسیٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔‘
داعش کے خلاف لڑنے والے عالمی فوجی اتحاد کی قیادت کے لیے 5200 امریکی فوجی عراق میں موجود ہیں لیکن ملک کی سرکردہ شخصیات نے اکٹھے ہو کر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ غیرملکی فوجوں کو ملک سے نکلنے کا حکم دیا جائے۔
امریکہ مخالف مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے جمعے کو بغداد میں ایک بڑی ریلی کا اہتمام کیا، جس میں شریک ان کے ہزاروں حامیوں نے امریکی فوجیوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔
اس سے پہلے مقتدیٰ الصدر بغداد اور ملک کے جنوبی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہروں کی بھی حمایت کرتے رہے ہیں حالانکہ عراقی پارلیمان میں سب سے بڑا دھڑا اور ملک کی اعلیٰ وزارتیں ان کے کنٹرول میں ہیں۔
جمعے کو ہونے والے مظاہرے کے موقعے پر انھوں نے نوجوانوں کی قیادت میں جاری اصلاحات کی مہم کی حمایت ترک کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد مظاہرین نے خیمے اکھاڑ کر گھروں کی راہ لینی شروع کر دی۔
حامیوں کو خوف ہے کہ مقتدیٰ الصدر کی سیاسی سرپرستی کے بغیر حکام ان کی تحریک کو کچلنے کے لیے اقدامات کریں گے۔
پولیس نے دھرنا دینے والوں کے کیمپوں پر دھاوا بولنے کی کوشش بھی کی اور اس حوالے سے اتوار کو مظاہرین کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔
سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ اور آنسو گیس استعمال کی تاکہ انھیں تحریر سکوائر کے مرکزی کیمپ سمیت مختلف چوراہوں اور سڑکوں سے نکالا جا سکے جہاں وہ کئی ماہ سے موجود ہیں۔
مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں بغداد اور ناصریہ شہر میں ایک، ایک شخص مارا گیا۔ طبی ذرائع کے مطابق ملک بھر میں درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے۔
عینی شاہدین کے مطابق آدھی رات کے بعد ناصریہ کے جنوبی سکوائر کے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بولا گیا اور خیموں کو آگ لگا دی۔
دوسری جانب تشدد کے تازہ واقعات کے باوجود ہزاروں طلبہ بغداد اور ملک کے جنوبی علاقوں میں سڑکوں پر نکل آئے تاکہ ملک کی توجہ کو مطالبات پر مرکوز رکھا جا سکے۔
بصرہ میں سینکڑوں مظاہرین نے مرکزی احتجاجی کیمپ کو اکھاڑنے پر پولیس کے خلاف احتجاج کیا۔
عراق میں گذشتہ برس یکم اکتوبر کو بےروزگاری، شہری سہولیات کی قلت اور بدعنوانی کے خلاف نوجوانوں نے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کے بعد حکومت میں اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
کئی ماہ سے جاری مظاہروں اور تشدد کے واقعات میں اب تک 470 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں سے اکثریت مظاہرین کی ہے۔ اب مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر انتخابات کروائے جائیں، نیا خود مختار وزیراعظم مقرر کیا جائے اور بدعنوانی اور حالیہ خون ریزی میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔