ساتھ والی گاڑی کا شیشہ کھلا تو ہم نے اس کے اندر ایسا ہوش ربا منظر دیکھا کہ جلدی سے آگے بڑھ جانے ہی میں عافیت سمجھی۔
تنگ سڑک پرہمارے آگے جانے والی یہ موٹر کاردس منٹ تک ہمیں تنگ کرتی رہی تھی۔ کسی مخمور سانپ کی طرح دائیں بائیں لہراتی اس قیمتی کار کی رفتار انتہائی کم تھی۔ اس کے سامنے دور تک سڑک خالی تھی جبکہ پیچھے گاڑیوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ صاحبِ کار پر ان گاڑیوں کے ہارنزاور لائیٹوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ اسے کراس کرنا اس لیے خطرناک تھا کہ گلی نما روڈ تنگ تھی اور اس موٹر کی سرمست چال کی بنا پر ایسی کوئی احمقانہ کوشش اُستاد فیقے ڈینٹر کے در پر حاضری کا سبب بن سکتی تھی۔
کوئی دس منٹ تک اپنا کمالِ ضبط آزمانے کے بعد ذرا سی کھلی جگی آئی تو ہم اپنی گاڑی دوڑا کر اس کے برابرلائے اور صاحب کار کو بے نقط سنانے کے لیے شیشہ کھولا۔ جواب میں ادھر سے بھی شیشہ کھلا تو اسے ایک نہایت ہی خوش شکل باجی چلا رہی تھی، جنہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم سے پوچھا: ’کی تکلیف اے؟‘
ہمیں فوراً خیال آیا کہ غصہ حرام ہے اور ویسے بھی ہمیں کوئی الٹی سیدھی بات کرکے بازار میں اپنا تماشا بنوانے یا اپنے اوپر ہراسمنٹ ایکٹ کی کوئی دفعہ لگوانے کا رتی برابر شوق نہیں۔
ہوشربا منظر مذکور ہم نے یہ دیکھا کہ ایک تو نیک بخت گاڑی چلانے کے سیکھنے کے مرحلے میں تھیں، اوپر سے دوران ڈرائیونگ آئینے میں اپنا میک اپ بھی درست کیے جا رہی تھیں اور سمارٹ فون کان سے لگائے کسی خوش نصیب کے ساتھ ایسی بےتکلفی سے محو گفتگو کہ گاڑی بھی جھومتی جا رہی تھی اور اسے اپنے پیچھے آنے والے موٹروں کے سیلاب کی بھی کچھ خبر نہیں تھی۔ یہ لاجواب موبائل سروس استعمال کرنے والے باکمال لوگوں کے شانداررویوں کی ایک نمائندہ جھلک ہے۔
جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی ہم فکسڈ لائن پر بات کرنے کے آداب و اطوار سیکھ رہے تھے کہ اوپر سے کم بخت موبائل فون بھی آ گیا اور ہم نے اس جدید صوتی آلے کی بھی بلا تکلف درگت بنانی شروع کر دی۔ منقول ہے کہ پی ٹی سی ایل کی فکسڈ لائن کے زمانے میں پروفیسر صاحب گلاس میں فکسڈ لائن پر بات کرنے کے آداب بتا رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ’جب آپ کسی کے گھر فون کریں سب سے پہلے کہیں۔۔۔۔‘ آخری بینچ سے آواز آئی: ’کیا بُڈھا گھر پر ہے؟‘ موبائل آنے کے بعد عمران خان نما تبدیلی یہ آئی ہے کہ بقول نعیم مشتاق: ’بڑا کیدو بھی سو جائے تو اک مس کال کر دینا۔‘
ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی سائنسی ایجاد کے استعمال کے بارے میں اس کے موجد کے گمان میں بھی وہ کچھ نہیں ہوتا، جو ہمارے ہاں کیا جاتا ہے۔ مثلاً لاؤڈ سپیکر بنانے والے کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ اس کی ایجاد سے دنیا کے کسی خطے کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی جائیں گی۔ موبائل فون کا خالق بھی لاعلم تھا کہ اس کے صوتی آلے کو دنیا میں کوئی برگزیدہ قوم اپنے غیرتہذ یب یافتہ رویوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرے گی، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس سے بم چلانے کا کام لے گی۔ سوشل میڈیا کے استعمال پر توایک پورے الگ کالم کی ضرورت ہے۔
جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی ہم فکسڈ لائن پر بات کرنے کے آداب و اطوار سیکھ رہے تھے کہ اوپرسے کم بخت موبائل فون بھی آ گیا اور ہم نے اس جدید صوتی آلے کی بھی بلا تکلف درگت بنانی شروع کر دی۔
صورت حال کچھ یوں ہے کہ اول تو ہر جگہ اورہر محفل میں طرح طرح کی مسلسل بجتی رنگ ٹونز ہی سکون سے بات کرنے یا سمجھنے نہیں دیتیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اگر دس لوگ محفل میں بیٹھے ہیں تو ان میں سے آدھے اپنے اپنے موبائل کان سے لگائے بلند آواز میں بھانت بھانت کی بولیاں بولتے نظر آتے ہیں۔
اخلاق پر ہمیں وہ عبور حاصل ہے کہ اگر ایک صاحب کا فون بج اٹھتا ہے تو وہ باہر جا کر بات کرنے کی بجائے وہیں بات کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے دوسروں کو خاموش رہنے کی ہدایت جاری فرماتے ہیں۔ کئی برادران و ہمشیرگانِ ملت فون پر بات کرتے ہوئے اپنے منہ کا پھاٹک اس اس زورسے کھولتے ہیں کہ جی چاہتا ہے، انہیں کہا جائے: ’فون بند کر دیں، آپ کی آواز ویسے بھی اگلے تک پہنچ رہی ہو گی!‘
اگر ہمیں کسی سے کائی کام ہو تو رات کے دوبجے ہیں یا صبح کے چار، ہم تمام تراخلاقایات کو دولتی جھاڑ کر فون کرنے میں ذرا حیا محسوس نہیں کرتے۔
ہم جب بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں تو تماشائے اہل کرم کا خوب نظارہ کرتے ہیں۔ درجن بھر مسافر اپنے اپنے موبائلوں پر محو گفتگو ہوتے ہیں، جس میں: ’ہور سنا فیر؟‘ جیسی لایعنی گفتگو کی تکرار ہوتی ہے۔ ساتھ ہی کوئی بھائی اپنے سمارٹ فون پر اونچی آواز میں اخلاق سوز پشتو گانا سن کرمحظوظ ہورہا ہوتا ہے اور کوئی پنجابی میں نصیبو لال کی مدھر آواز سے لطف اٹھا رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں جب ڈرائیور گاڑی کے فُل سپیکر کھول کر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا کوئی دُکھی سا گیت لگا دیتا ہے تو مکس موسیقی کے اس روح پرور ماحول میں باقی کے مسافروں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک مرتبہ ہم ویگن میں سفر کررہے تھے۔ گاڑی چلتے ہی ایک نوجوان نے موبائل سے نمبر ملا کرکان سے لگایا تو جیسے جنریٹر سٹارٹ ہو گیا۔ آدھے گھنٹے کا سفر تھا مگر وہ مرد کا بچہ رستہ بھر تمام مسافروں پر حاوی رہا۔ اس دوران وہ کبھی ایک بچے سے بات کرتا، کبھی دوسرے، کبھی تیسرے اور کبھی ان کی ماں سے۔ تمام تر گفتگو انتہائی فضول اور بے مقصد تھی۔ ہمارا سر پھٹ رہا تھا۔ آخری سٹاپ آیا تو نوجوان نے یہ الوداعی الفاظ کہے: ’بس بچو، اب تم فون بند کرو، میں تمہارے گھر کے قریب پہنچ گیا یوں، باقی باتیں مل کر کرتے ہیں!‘
اس وقت بے اختیار ہمارا دل جو کچھ کرنے کو چاہا، وہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
ایک دفعہ کوچ میں دوران سفر ایک بزرگ خاتون کو ان کی کسی جاننے والی کی کال آ گئی۔ ماں جی نے موقع غنیمت جانا اور با آواز بلند اپنی بہو کے کردار اور عادات و اطوار کے خفیہ گوشوں کی نقاب کشائی شروع کی۔ مسافروں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ خدا انہیں لمبی عمر دے، مسافروں کی جنرل نالج میں خاصا اضافہ فرما کر گاڑی سے اتریں۔
اگر آپ کا نمبر کسی میسج ماسٹر کے ہاتھ لگ گیا ہے تو سمجھیں خیر نہیں۔ میسج کرنے والے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ آپ کا جاننے والا بھی ہو۔ وہ ماسٹر کسی نام نہاد اصلاحی مہم کا کل پرزہ ہوسکتا ہے یا کسی تبلیغی مشن کا ٹھکیدار یا شغلاً میسج کرنے کا شوقین۔ وہ آپ کے منع کرنے کے باوجود صبح، دوپہر، شام، رات اپنے تلاطم خیز نظریات اور جذبات آپ پر ٹھونستا رہے گا۔
اجنبی نمبروں سے بار بار کی جانے والی مسڈ کالوں کی حرکت اخلاقی دیوالیہ پن کی بھرپور عکاس ہے۔ آپ تنگ آ کر کال کرکے اس کرم فرمائی کا مقصد پوچھتے ہیں تو آگے سے نیوز کاسٹر کی طرح پوری ڈھٹائی سے جواب دیا جاتا ہے کہ میں نے تو کوئی کال نہیں کی۔ اخلاقی گراوٹ میں اس حرکت کا بھی اپنا ایک مقام ہے، جب کال کر کے پوچھا جاتا ہے:’ آپ کون بول رہے ہیں؟‘
انتہائی رش والی جگہ پر بھی لوگ کار، موٹر سائیکل یا رکشہ چلاتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس دیدہ دلیری سے ایک ہاتھ ہینڈل پر رکھے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل کان سے لگائے، ’ہور سنا فیر، کی حال اے؟‘ برانڈ گفتگو پورے اعتماد سے کرتے ہیں، جیسے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھے ہوں۔
پھر ہم لوگ کہتے ہیں کہ آج کل سڑکوں پر حادثے بہت ہوتے ہیں۔