صوبہ خیبر پختونخوا کے تین وزرا عاطف خان، شہرام خان ترکئی اور شکیل احمد کی 25 جنوری کو اچانک برطرفی کا اعلامیہ چند منٹوں میں بریکنگ نیوز بن گیا، جس کے بعد تجزیوں اور بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
کچھ سیاسی مبصرین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ وزیر کھیل و ثقافت عاطف خان اور وزیر صحت شہرام خان ترکئی کو عہدےسے ہٹائے جانے کے امکانات سے آگاہ تھے۔
انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ دونوں وزرا کی برطرفی کے معاملے میں سرکاری سطح پر بیان کی گئی وجوہات حقائق پر مبنی نہیں اور اندرون خانہ معاملات کچھ اور تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ذرائع کے مطابق عاطف خان اور شہرام خان کی صوبائی پارٹی قیادت سے ناراضگی چل رہی تھی جس کی ایک وجہ فنڈز کی عدم فراہمی اور وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ مختلف معاملات پر اختلاف بتایا جا رہا تھا۔
اس کے علاوہ شہرام خان وزیر بلدیات سے وزیر صحت بننے پر بھی ناخوش تھے۔
ان تمام تحفظات پر دونوں وزرا نے اپنے ہم خیال ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ حیات آباد میں ایک ملاقات بھی کی تھی، جس میں خیال کیا جا رہا تھا کہ پارٹی قیادت پر دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات منوا لیے جائیں گے، لیکن نتائج برعکس نکلے۔
برطرفی کے بعد عاطف خان اور شہرام خان ترکئی مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں نظر آئے۔ اس کے علاوہ دونوں کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی تصویر بھی خوب چلی لیکن خیبر پختونخوا کابینہ کے تیسرے برطرف وزیر ریوینیو شکیل احمد کہیں نظر نہیں آ رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عاطف خان اور شہرام خان کی برطرفی کے حوالے سے بہت سی باتیں منظر عام پر آچکی ہیں تاہم ابھی تک وزیر مال کی برطرفی پر نہ تو زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے اور نہ ہی کسی نے انھیں زیادہ پوچھا۔
کیا اس کی وجہ صوبائی سطح پر پی ٹی آئی میں گروہ بندی ہے یا کچھ اور؟ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے شکیل احمد سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ روزانہ پارٹی کے لوگوں اور وزرا سے ملتے جلتے ہیں لیکن وہ کبھی کسی گروپ کا حصہ نہیں بنے۔
شکیل احمد نے بتایا کہ انہیں برطرف کیے جانے سے قبل کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کوئی وضاحت طلب کی گئی۔
’مجھے توقع نہیں تھی کہ مجھے برطرف کر دیا جائے گا کیونکہ میں پوری دل جمعی اور دیانت داری کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ میں نے کبھی کرپشن نہیں کی ،کچھ غلط نہیں کیا۔‘
جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے پوچھا کہ آیا ان کے وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ کچھ مسائل چل رہے تھے؟ تو انھوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ دراصل پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ ان کے محکمے میں مداخلت کرتے تھے۔ ’وہ میرے علم میں لائے بغیر لوگوں کی تعیناتیاں اور تبدیلیاں کروا تے تھےجن کو میں اسی دن منسوخ کر دیتا تھا۔ یہ سب پچھلے تین چار مہینے سے جاری تھا۔‘
شکیل احمد نے بتایا کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ کو اس مسئلے سے آگاہ کر دیا تھا جبکہ وزیر اعظم کو معاملے کا اب پتہ چلا ہے۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے پوچھا کہ اگر ذاتی اختلاف کی بنیاد پر آپ کے خلاف سازش کی گئی تو پھر آپ نے عاطف خان اور شہرام خان کی طرح وزیر عظم کے ساتھ ملاقات کیوں نہیں کی؟
اس پر برطرف وزیر نے بتایا کہ دراصل عاطف اور شہرام کے ساتھ انہیں بھی ملاقات کا وقت دیا گیا تھا لیکن خاندان میں ایک فوتگی کی وجہ سے وہ اسلام آباد نہ جا سکے۔ ’تاہم شہرام اور عاطف نے وزیر اعظم کو تمام صورت حال سے آگاہ کر دیاہے، میں خود بھی کوشش کروں گا کہ وزیر عظم سے ملاقات کرلوں۔‘
سابق وزیر ریوینیو شکیل احمد کے حوالے سے پی ٹی آئی کے ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ان کا ایک کزن سوات میں محمود خان کا حریف بھی ہے، جو ان کی ناپسندیدگی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
پرنسپل سیکریٹری شہاب علی شاہ کی ریوینیو ڈیپارٹمنٹ میں مداخلت، وزیر اعلیٰ محمود خان کی پسند ناپسند کے الزامات پر ردعمل کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان خیبر پختونخوا حکومت اجمل وزیر سے بات کی تو انھوں نے جواب کے لیے کچھ دیر بعد رابطہ کرنے کو کہا۔ بعد ازاں ان سے کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ مداخلت یا پسند ناپسند کے الزامات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔