پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے چند ہندو خاندان گذشتہ روز واہگہ بارڈر کے راستے ہری دوار جانے کے لیے بھارت میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے مذہبی تہوار میں شرکت کرنی ہے، تاہم ان پاکستانی ہندو خاندانوں کے بھارت پہنچنے کی خبر کو بھارتی ذرائع ابلاغ میں کچھ اس انداز میں پیش کیا گیا کہ یہ خاندان مبینہ طور پر بھارتی شہریت کے خواہش مند ہیں۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ ’انڈیا ٹو ڈے‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان سے آنے والے ہندو خاندانوں کے بعض افراد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پاکستان کو برا نہیں کہنا چاہتے کیونکہ وہ ان کا ملک ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں اقلیتوں کے لیے صورت حال سازگار نہیں ہے۔‘
اسی طرح ویب سائٹ ’اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق پاکستان سے 50 کے قریب خاندان بھارت پہنچے ہیں جن میں شامل لکشمن داس کا کہنا ہے کہ ’ہری دوار میں شبھ اشنان کرنے کے بعد میں اس بارے میں سوچوں گا کہ آیا مجھے بھارت میں ہی رہنا ہے یا نہیں۔‘
بھارتی ایم ایل اے راجوڑی گارڈن اور ڈی ایس جی ایم سی کے صدر منجندر ایس سرسا نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو اور کچھ تصاویر شیئر کیں اور ساتھ میں لکھا: ’چار ہندو خاندان اپنی زندگی اور مذہبی عقیدے کو بچانے کے لیے پاکستان چھوڑ کر آئے ہیں۔ میں خود انہیں لینے کے لیے بارڈر پر گیا۔ (وزیر داخلہ) امِت شاہ سے درخواست ہے کہ وہ انہیں جلد از جلد شہریت دے دیں۔‘
4 Pak Hindu families forced to leave Pakistan after the alleged religious persecution, will meet Amit Shah for citizenship said Manjinder Singh Sirsa : The Tribune India https://t.co/9BSLRzdZLz
— Manjinder S Sirsa (@mssirsa) February 4, 2020
واضح رہے کہ پاکستان سے مذہبی تہوار میں شرکت کے لیے جانے والے ہندو خاندانوں کو 25 دن کا سیر و تفریح کا ویزہ دیا گیا ہے۔
اس معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان رپورٹس کو ’من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اپنے ملک میں شہریت بل تبدیل کرنے والا اور ملک میں موجود اقلیتیوں کو اُن کے حق سے محروم کرنے والا بھارت اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشیاں کر رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائشہ فاروقی کا مزید کہنا تھا کہ یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ ’بھارت اپنے اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود اقلیتوں کو اُن کے حقوق میسر ہیں اور وہ یہاں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ’اقلیتوں کے حقوق کی واضح مثال کرتار پور راہداری ہے، جس سے دنیا بھر کے سکھوں کے لیے اُن کے مقدس مقام تک رسائی آسان بنائی گئی ہے۔‘
دوسری جانب ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کی تصدیق تو نہیں کر سکتے ’لیکن ممکن ہے کہ یہ سچ ہو کیونکہ حالیہ کچھ عرصے میں اندرون سندھ کے شہر گھوٹکی میں کم عمر ہندو لڑکیوں کی زبردستی مذہب تبدیلی اور پروفیسر نوتن لال پر توہین رسالت کے الزام جیسے واقعات اس کے محرکات ہو سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ ’ان حالیہ واقعات سے سندھ میں موجود ہندو برادری کو تشویش بھی تھی اور تحفظات بھی لاحق تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہندو مذہب کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں لیکن ’حکومت پاکستان کو سندھی ہندوؤں میں موجود اس خوف کو ختم کرنا ہوگا۔‘