دبئی میں منعقد ہونے والی پہلے پاکستان انٹرنیشنل سکرین ایوارڈز کی تقریب پر پاکستان میں تو شور و غوغا ہو رہا ہے لیکن ہم آپ کو اس کا دبئی کا حال بتاتے ہیں۔
جمعے کی شب دبئی کے معروف کوکاکولا ایرینا میں منعقد ہونے والی یہ تقریب شام سات بجے شروع ہونا تھی تاہم آٹھ بجے تک اس کا ریڈ کارپٹ ہی بمشکل شروع ہوسکا۔ کوئی بھی بڑا سٹار ساڑھے آٹھ بجے سے پہلے ریڈ کارپٹ پر نمودار نہیں ہوا۔ اس کا الزام بہت سے اداکاروں نے انتظامیہ پر عائد کیا۔ اداکاروں کے مطابق انہیں ان کے ہوٹل سے ایرینا لانے والی گاڑیاں ہی نہیں آئی تھیں۔
اتنی بڑی تقریب کے حساب سے ریڈ کارپٹ بہت ہی چھوٹا تھا اور روشنی کا مناسب انتظام بھی نہیں تھا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سکیورٹی پر مامور افراد کی جانب سے باربار ہراساں کیا جاتا رہا۔
خدا خدا کر کے دبئی کے مقامی وقت کے مطابق ایوارڈز کی تقریب ساڑھے نو بجے کے بعد شروع ہوئی تو معلوم ہوا کے ریڈ کارپٹ پر جو ہنگامہ آرائی اور بدنظمی تھی وہ بیک سٹیج پر کئی گُنا زیادہ ہے۔
تاہم یہ بات ماننا پڑے گی کہ اتنا بڑا اور زبردست سٹیج میں نے اس سے پہلے کسی اور پاکستانی ایوارڈ شو کا نہیں دیکھا۔
دبئی میں اس شو کے ٹکٹ بھی فروخت کیے گئے تھے جن کی قیمت 100 درہم سے 500 درہم تک تھی۔ دبئی میں موجود پاکستانی کمیونٹی بھی کافی تعداد میں وہاں موجود تھی تاہم ہال صرف 60 فیصد ہی بھر سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے پاکستان سمیت دبئی میں بھی کئی ایوارڈ شوز کی روپورٹنگ کی ہے مگر اس مرتبہ انتظامیہ کی نا اہلی کا یہ عالم رہا کہ 17 گھنٹے کے بعد بھی تقریب کی آفیشل طور ایک تصویر تک جاری نہیں کی گئی جبکہ پاکستان میں اس سے پہلے ہونے والی ایوارڈز میں یہ کام زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔
شو کا آغاز پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے قومی ترانوں سے ہوا۔ اس موقعے پر اداکارہ سارہ خان بھی سٹیج پر موجود تھیں۔ اس دوران طویل عرصے کے بعد پس پردہ اعلانات کرنے والے فخر عالم تھے۔
اس کے بعد کوئی میزبان سٹیج پر نہیں آیا اور فخر عالم ہی نے اگلی پرفارمنس کا اعلان کیا۔ بعد میں میزبان بھی آئے اور کچھ چٹکلے اور شگوفے بھی چھوڑے گئے۔
ایوارڈ شو تھا تو پہلے بات کرتے ہیں ایوارڈز کی۔ پاکستان انٹرنیشنل سکرین ایوارڈز (پی سا) نے فلم، ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا سٹارز کے لیے بھی ایوارڈز کا اعلان کیا تھا۔
یہاں پر ایوارڈ دینے کے معیار پر بھی سوال اٹھتا ہے کیونکہ جن لوگوں کے نام جیوری کے طور پر سامنے آئے تھے ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ نامزدگی کے عمل میں تو وہ موجود تھے لیکن ایوارڈ کے لیے انتخاب سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
ایوارڈ شو بد نظمی کا شکار رہا۔ کئی مرتبہ کسی ایوارڈ کے لیے کسی کے نام کا اعلان ہوا تو ایوارڈ دینے والے کے ہاتھ میں لفافہ کسی اور کیٹیگری کا تھا۔ جب کیٹیگری ٹھیک بتائی گئی تو کبھی ایوارڈ کی ٹرافی نہیں آرہی تھی اور کبھی مائیک موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ کبھی ایوارڈ لینے والا ہی نہیں تھا۔ ایوارڈ کسی دوسرے نے وصول کیا۔
ماہرہ خان جو پورے شو میں موجود رہی بلکہ سٹیج پر آکر ایوارڈ بھی دیے تھے جب ان کی باری آئی تو ان کا ایوارڈ ہمایوں سعید نے وصول کیا۔
میزبان واسع چوہدری اور عدنان صدیقی نے کچھ اچھے جملے ضرور ادا کیے لیکن پر ان پر مقبول ترین ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو کی چھاپ واضح تھی۔ حریم فاروق اور عائشہ عمر، مانی بھائی اور اُشنا شاہ اور آخر میں مانی بھائی اور واسع چوہدری نے جلدی جلدی ایوارڈز نمٹا دیے کیونکہ منتظمین کو مقررہ وقت کے اندر ایوارڈ دینے کا کام مکمل کرنے کی ہدائت کی گئی تھی۔ اس ہڑبونگ میں بہترین معاون اداکار اور اداکارہ کے ایوارڈز دیے ہی نہ جا سکے۔ گلوکارہ آئمہ بیگ اور سٹرنگز بینڈ کی پرفارمنس کی باری بھی نہیں آئی۔
بہترین معاون اداکارہ کی کیٹیگری میں نامزد زارا نور عباس نے صورت حال پر ردِ عمل میں کہا کہ اب اگر انہیں ایوارڈ بھجوایا بھی گیا تو وہ اسے قبول نہیں کریں گی۔
میرے پاس تم ہو کی ٹیچرحرامانی نے مسلسل تین دن تک رقص کی مشق کی تھی۔ انہیں رقص کو منفرد بنانے کے لیے بہت اونچے پلیٹ فارم سے نیچے آنا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
پرفارمنس میں اگر کسی نے بازی لی تو وہ علی ظفر تھے جنہوں نے اپنے مقبول نغمے گا کر حاضرین کے دل جیت لیے۔ سارہ لورین نے پرانی پاکستانی فلموں پر خوبصورت رقص کیا۔ اسی معیار کی پرفارمنس ثروت گیلانی اور ان کے شوہر فہد مرزا نے بھی پیش کی۔ فخرِعالم نے اپنے مشہور گانے ’بھنگڑا رَیپ‘ اور ’پراؤڈ پاکستانی‘ پیش کیے جو نوے کی دہائی کی پاکستانی میوزک کی یاد دلا گئے۔ مومنہ مستحسن اور بلال سعید کی پرفارمنس سب سے کمزور جبکہ ایشال فیاض کی پرفارمنس اچھی تھی۔
ایوارڈ میں بیک گراؤنڈ ڈانسرز وہ لیے گئے تھے جو عموماً بالی وڈ کے ایوارڈ شوز میں ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ ڈانسروں کی پرفارمنس پاکستانی ڈانسروں سے بہتر تھی۔
تقریب میں پاکستان کے وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور حکمران جماعت کے سینیٹر فیصل جاوید بھی موجود تھے جنہوں نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیے۔
اس موقعے پر وفاقی وزیرِ فواد چوہدری نے کہا کہ اس تقریب سے پاکستان کی مثبت ساکھ سامنے آئی ہے۔ ہمیں پاکستان میں وہ کرنا ہے جس کے لیے ملک بنایا گیا تھا۔
جن فنکاروں کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیے گئے ان میں اداکار غلام محی الدین ، اداکارہ اور ہدایت کارہ سنگیتا، اداکار مصطفٰی قریشی، اداکارہ ریما خان اور گلوکار عطاء اللہ عیسٰی خیلوی شال ہیں۔
عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے بیٹےسانول عیسٰی خیلوی نے سٹیج پر آکر اپنے والد کے گائے گیت سنائے۔
ڈرامے کے شعبے میں تقریباً تمام ہی ایوارڈز ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کے نام رہے۔ بہترین اداکار ہمایوں سعید اور عدنان صدیقی (جیوری) بہترین مصنف خلیل الرحمان قمراور بہترین ہدایت کار ندیم بیگ قرار پائے۔ بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ثنا جاوید کو ڈرامہ سیریل رسوائی کے لیے دیا گیا۔
مزاحیہ اداکاری کے شعبے میں ڈرامہ سیریل ’عہدِ وفا‘ کے لیے عدنان صمد کو بہترین مزاحیہ اداکار اور اداکارہ کے لیے نادیہ افگن کو ہم ٹی وی کی ڈرامہ سیریل ’سنو چندا‘ میں بہترین اداکاری پر ملا۔
فلم کے شعبے میں 2019 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سپر سٹار‘ کے لیے ماہرہ خان کو بہترین اداکارہ اور اسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’پرے ہٹ لو‘ کے لیے شہریار منوّر کو بہترین اداکار کا ایوارڈ دیا گیا۔
موسیقی کے شعبے میں مومنہ مستحسن اور بلال سعید کے گانے ’باری‘ کو پاپولر کیٹیگری میں بہترین گانا قرار دیا گیا جبکہ جیوری کی جانب سے2019 کے بہترین نغمے کا اعزاز عمیر جسوال کے ’چل رہا ہوں‘ کے حصے میں آیا۔