پاکستان ہر سال خام تیل کی درآمد پر اربوں ڈالرز خرچ کرتا ہے۔ اور اس تیل کا بڑا حصہ ملک کی سڑکوں پر فراٹے بھرتی موٹر سائیکلوں اور موٹر کاروں سے دیو ہیکل بسوں اور ٹرکوں میں استعمال ہوتا ہے۔
اس بہت بڑے حکومتی خرچے کو بچانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی گاڑیاں تیل کے بجائے کسی دوسرے ایندھن سے چلائیں۔ ایسی کیا چیز ہو سکتی ہے جو گاڑیاں چلانے میں پٹرول کی جگہ لے سکے؟
تو اچھی خبر یہ ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان میں ایک بڑا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ اور وہ ہے مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں (الیکٹرک وہیکلز) کی تیاری ملک میں شروع ہو گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے آنے سے تیل کے استعمال میں کم از کم ستر فیصد کمی واقع ہو گی۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے چند روز قبل لاہور کے قریب سازگار کے نام سے بننے والے الیکٹرک رکشے کی رونمائی کی تقریب میں حصہ لیا۔
ابتدائی طور پر پاکستان میں مکمل طور پر بجلی سے چلنے والے رکشے کی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔ جو اگلے مراحل میں گاڑیوں اور بسوں و ٹرکوں کی تیاری کی طرف بڑھے گا۔
پاکستان شماریات بیورو کے اکنامک سروے برائے 2018۔2019 کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر دو کروڑ موٹر سائیکلیں اور رکشے موجود ہیں۔ جبکہ موٹر کاروں، بسوں اور ٹرکوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔
پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت آئندہ پانچ سال کے دوران مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی ایک لاکھ موٹر کاریں، پانچ لاکھ موٹر سائیکل اور رکشے اور ایک ہزار بسیں اور ٹرک پاکستان کی سڑکوں پر موجود ہوں گے۔
یہ گاڑیاں چارج کہاں کی جائیں گی؟ اس سوال پر وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 3000 سی این جی سٹیشن ہیں جو پرائم لوکیشن پر واقع ہیں اور گیس کی کمی کی وجہ سے بند ہیں، انہیں چارجنگ سٹیشنز میں تبدیل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ کمپنیز سے اس بارے میں بات ہو رہی ہے، پیٹرول پمپس پر بھی یہ سہولت دی جا سکتی ہے۔
جب کہ سال 2030 تک ملک میں تیار ہونے والی تیس فیصد گاڑیاں، چھوٹے بڑے ٹرک ، جیپیں اور ویگنیں مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی ہوں گی۔ جب کہ پچاس فیصد موٹر سائیکل اور رکشے بھی الیکٹرک وہیکلز ہوں گی۔
اور سال 2040تک پاکستان کی سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کا نوے فیصد حصہ مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر مشتمل ہو گا۔
ان اقدامات سے پاکستان کی فضاؤں میں موجود آلودگی کم از کم 65 فیصد کم ہو سکے گی۔