اسلام آباد میں واقع لال مسجد میں گذشتہ تین روز سے جاری کشیدہ صورت حال اتوار کو فریقین کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہوگئی ہے جس کے بعد لال مسجد میں نمازیوں کی آمد و رفت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔
اس معاہدے کا اعلان عبدالرشید غازی کے بیٹے ہارون غازی نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کیا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کے ایک اعلی اہلکار نے معاہدے کی تصدیق کی ہے تاہم سوموار کی صبح تک سرکاری طور پر معاہدے کی کوئی تفصیل عام نہیں کی گئی تھی۔
الحمدللہ،لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا محاصرہ ختم حکومت کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔اپ سب کی دعاؤں اور تعاون کا شکریہ۔
— Haroon R. Ghazi (غازی) (@haroonghazi) February 9, 2020
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ہارون غازی کا کہنا تھا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ ایچ الیون کا ان کو الاٹ پلاٹ کیونکہ متنازعہ بن گیا ہے اور اس پر ان کی تقریبا تین کروڑ روپے کی رقم لگی ہوئی ہے تو جب تک اس کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک حکومت کسی پارٹی کو یہ پلاٹ نہیں دے گی۔ ’اس پر مذاکرات کے بعد جید علما کی ضمانت پر ہم نے جامعہ حفصہ کی بچیاں واپس بلا لیں ہیں اور لال مسجد کا محاصرہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘
سپریم کورٹ کے حکم پر جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے 2012 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ جہاں مسجد اور مدرسے کی تعمیر بھی شروع کر دی گئی تھی۔
تاہم ایچ الیون میں واقع جامعہ حفصہ اور متصل عمارتیں انتظامیہ نے سیل کر رکھی ہیں۔ جامعہ حفصہ سے تعلق رکھنے والی تقریباً ایک سو طالبات جمعرات کی رات لال مسجد میں داخل ہو گئیں، جس کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے لال مسجد کا محاصرہ کر لیا۔
ہارون کا کہنا تھا کہ تاہم حکومت کے ساتھ مزید مطالبات پر بھی بات چیت جاری رہے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز گذشتہ دو ہفتوں سے مسجد میں موجود تھے اور اس دوران جمعے کی نماز بھی پڑھا چکے ہیں۔ معاہدے کے مطابق مولانا عبدالعزیز کے مسجد آنے جانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
سال 2007 میں لال مسجد اور اس سے منسلک جامعہ حفصہ کے طلبہ کے پرتشدد احتجاج کے بعد یہاں فوجی کارروائی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں 102 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں ایس ایس جی گروپ اور رینجرز کے 11 اہلکار اور مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے بھائی غازی عبدالرشید بھی شامل تھے۔
تازہ کشیدگی کے بعد انتظامیہ نے لال مسجد کے گرد خار دار تارے بچھا کر اس کو محصور کر دیا ہے۔ مسجد کے مرکزی گیٹ کے سامنے قناتیں لگا کر راستہ بند کر دیا گیا تھا۔