چین میں کرونا وائرس سے ایک دن میں مرنے والے افراد کی تعداد 97 ہو گئی ہے، جبکہ ملک بھر میں اب تک وائرس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 908 ہو گئی ہے۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں مزید تین ہزار افراد میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس طرح وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
کمیشن نے روزانہ کی بنیاد پر اپنے اپ ڈیٹ میں کہا ہے کہ صرف دو روز میں ہیوبی صوبے میں 91 افراد ہلاک ہوئے۔ کرونا وائرس کی وبا اسی صوبے سے پھوٹی تھی۔
دوسرے ملکوں میں اب تک مختلف مقامات پر 350 افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ہانگ کانگ اور فلپائن میں وائرس سے متاثر ہو کر ایک، ایک شہری موت کے منہ میں جا چکا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہانگ کانگ میں چین سے آنے والے افراد کے لیے طبی علیحدگی (کوارنٹائن) کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ہانگ کانگ نے چین سے آنے والے افراد کے لیے دو ہفتے کی ’طبی قید‘ کو لازم قرار دیا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہفتے کو چین میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 86 تھی جو اس وائرس سے ایک دن میں ہلاک ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
وائرس کے پھیلاؤ کے باعث چینی حکومت نے کئی شہروں میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر رکھا ہے جس کے باعث لاکھوں لوگ گھروں میں قید ہو کر رہے گئے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں حکام کی جانب سے اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کئی ممالک نے چین سے آنے والی پروازوں اور اپنے شہریوں کو چین جانے سے روکنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔
گذشتہ دسمبر میں وائرس کے حوالے سے تنبیہ کرنے والے ڈاکٹر لی وینلیانگ کی جمعے کو ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر کافی اشتعال پایا جاتا ہے۔ حکومت نے ڈاکٹر لی کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
تحقیق کاروں کی جانب سے وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے دوا تیار کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔
چینی سائنسدانوں کی جانب سے دو ہفتے قبل تصدیق کی گئی تھی کہ بیجنگ میں موجود کرونا وائرس کے متاثرین کو ایچ آئی وی ایڈز کی دوا دی گئی تھی۔ ایسا 2004 میں سارس پر سامنے آنے والی ایک تحقیق کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس میں اس دوا کے باعث متاثرہ افراد کی صحت میں بہتری دیکھی گئی تھی۔
سائنسدانوں کے مطابق دنیا بھر وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوششوں میں کئی ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔