اسلام آباد کے جناح کنویشن سینٹر میں آج انٹرنیشنل کانفرنس آن میڈیا اینڈ کانفلیکٹ کا انعقاد ہوا، جہاں تعلیمی اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ کچھ طلبہ نے اپنے ذاتی پروجیکٹس پر مبنی سٹال بھی لگا رکھا تھا۔
اس سٹال پر کوئی برانڈنگ نہیں تھی۔ کسی کمپنی یا ادارے کا نام نہیں لکھا تھا۔ سفید پردے تھے اور بس ایک کاغذ پہ چھپا ہوا تھا، ’ٹیک آ بریک۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ دیکھ کر میں خود بھی رک گیا اور وہاں موجود نوجوانوں سے پوچھا کہ ’وجہ کیا ہے اس قدر سادگی کی، ایسے مینیملزم کی؟‘
انہوں نے بتایا کہ یہ نسٹ یونیورسٹی کے طلبہ کا ذاتی پروجیکٹ تھا، اس لیے ادارے کی برانڈنگ نہیں کی گئی۔ دوسری طرف یہ سب کچھ اس لیے بھی سوٹ کر رہا تھا کہ یہ ایک قسم کا ڈیجیٹل ڈی ٹوکس پروجیکٹ تھا۔
’ٹیک آ بریک‘ کا مقصد یہ تھا کہ ’اس ڈیجیٹل دوڑ سے نکلیں، ہمارے سٹال پہ آئیں، ورچوئل رئیلٹی والی عینک چڑھائیں اور اطمینان سے گھاس پھوس، سبزہ اور درخت دیکھیں۔ ہم آپ کو ہیڈ فونز دیں گے، انہیں لگائیں اور پرسکون قسم کا میوزک سنیں۔‘
نوجوانوں کی طرف سے اس طرح کا سکون پروگرام سامنے آنا بہت خوش کن تھا۔ طبیعت کو اچھا محسوس ہوا کہ بچے بھی موبائل سے فرار کی سوچتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف راغب کرتے ہیں۔