نجانے کیوں کر ہم سب کے ذہنوں میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ جب تک ہم دھوکہ دہی نہیں کریں گے، کوئی شارٹ کٹ نہیں ماریں گے، ہمارا کوئی کام نہیں ہو گا۔
ہر دوسرا شخص وطن عزیر میں شارٹ کٹ اور آسان ترین طریقوں سے آگے جانے میں لگا ہوا ہے۔ ہر کوئی جعل سازی کے نت نئے طریقوں کے ساتھ میدان میں اُترتا ہے اور منافع کمانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ منفی سوچوں میں اپنی توانائی ضائع کر رہا ہے۔
تعلیم وہ واحد شعبہ تھا جو ہر قسم کی جعل سازی سے مبرا تھا۔ مگر آ پ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ اب وطن عزیز میں تعلیم کا شعبہ بھی جعل سازی کا شکار ہو گیا ہے۔ یہاں بھی شارٹ کٹ کو ہی کامیابی کا گُر سمجھا جانے لگا ہے۔ تعلیم کے میدان میں تحقیق ہی وہ واحد شعبہ ہے جس پر ملک کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ جو نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں اس کو انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چین کیوں کر ہر سال غیر ملکی طالب علموں کو اپنے ملک میں سکالر شپ دیتا ہے۔ کیوں کہ ان کے تحقیق کو دوام ملتا ہے؟
وہ غیر ملکی طلبہ کو اپنے ملک بلا کر ان کی تحقیق سے استفادہ کر رہا ہے۔ جس کے بعد اب کہیں جا کر پاکستان کی جامعات میں OREC نامی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کی ذمہ داری ادارے کے اندر ہونے والی تحقیق کو باہر انڈسٹری میں کامیابی کے ساتھ چلانا ہے۔
مگر بات یہاں پر تعلیم یعنی تحقیق میں جعل سازی کی ہو رہی تھی کہ ہر شعبے میں جعل سازی ہورہی ہے تو تعلیم اور تحقیق میں ہمارے پاکستانی کیسے جعل سازی نہیں کریں گے۔ ملک بھر میں یونیورسٹیاں بنانے کے بعد ان یونیورسٹیوں میں سرقہ نویسی کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات اٹھائے گئے کہ تعلیمی دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ نجی تعلیمی اداروں سمیت تما م سرکاری اداروں کو بھی پابند بنایا گیا کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے فضا قائم کریں۔ اداروں میں مقابلے کی فضا پیدا کرنے کے لیے درجہ بندی کی روایت ڈالی گئی۔ پہلے سے شائع شدہ مواد کو چوری سے اپنے نام کرنے کے درست حوالہ جات دیے جائیں۔
اس مقصد کے لیے ایک سافٹ وئیر بنایا گیا جو سرقہ شدہ مواد کو پکڑ سکتا تھا، جس سے بہت سے بڑے بڑوں کے مقالہ جات چوری کے نکلے۔ مگر پاکستانی قوم کی سوچ کو ہزاروں توپوں کی سلامی جب یہاں اس سافٹ ویئر کا بھی توڑ نکالا گیا اور لوگوں نے یہاں بھی اپنی استعداد کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا اور یوں سرقہ شدہ چیزیں پھر سے میدان میں آنے لگیں جس کو سافٹ ویئر ٹرنٹین بھی نہیں پکڑ سکا۔
ٹرنٹین نامی سافٹ ویئر کو دھوکہ دینے میں بھی ہمارے لوگوں کا جواب نہیں۔ پہلے سے شائع شدہ علمی مواد کو اپنی تحیقق کا حصہ بنانا ہے تو پیراگراف میں ہیر پھیر کردو، دوسرے کے خیال کو اپنے الفاظ میں ڈال دو، اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو دیگر زبانوں میں ہونے والے کاموں کو گوگل ٹرانسلیٹر سے ٹرانسلیٹ کر کے انگریزی میں ڈال دو، تھوڑی بہت کانٹ چھانٹ کر دو اور اپنی چالاکی سے سافٹ ویئر کو دھوکہ دے کر اپنا مطلوبہ ہدف پورا کرو۔
موجودہ دور میں بہت سی یونیورسٹیوں میں چربہ سازی کے کیس سامنے آئے جس میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، کچھ لسٹیں تو ایچ ای سی نے اپنی ویب سائیٹس پر بھی ڈالی ہوئی ہیں۔ اس دھوکہ دہی کے ساتھ طلبہ اور اساتذہ صرف پروموشن اور ڈگری کے حصول کے لیے تحقیق کرنے میں مصروف ہیں، اساتذہ طلبہ سے کام کروا کر اپنے مقالے شائع کرانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ طالب علم اساتذہ کی مدد لے کر اپنے نام ریسرچ پیپر شائع کر رہے ہیں جس سے ذہنی پستی اور تعلیمی ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر سال ملک میں سینکڑوں پی ایچ ڈی ڈاکٹر فارغ ہوکر تعلیمی اداروں کو اپنی خدمات د ے رہے ہیں مگر ان میں نئے خیالات، تصورات، نظریات اور ایجادات کا فقدان نظر آ رہا ہے کیونکہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جس طرح طلبہ کی نشوونما ہورہی ہے اس سے چربہ ساز سکالروں نے ہی میدان میں اُترنا ہے کیونکہ یہاں ڈگری لینا مقصد ہے۔
ہماری تعلیمی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صرف اور صرف طالب علم پیدا ہو رہے ہیں، محقق نہیں۔ جس سے بے روزگار پی ایچ ڈی نوجوانوں کی کھیپ تیار ہو رہی ہے جس کا مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہے۔ یہاں ہونے والی تحقیق سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ تحقیق میں سالوں ضائع ہونے کے بعد وہ دیمک کھا جاتی ہے، کیونکہ صفحات کالے کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایسی تحقیق صرف سٹور رومز میں ڈمپ ہوجاتی ہیں۔ کسی کام نہیں آتی۔ ہمیں اگر واقعی میں تحقیق کرنی ہے تو بد دیانتی کو دور کرنا ہو گا، یونیورسٹی اساتذہ کو نوکری کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے تحقیق کرنی ہو گی، طالب علموں کو آرام پرستی سے دور بھاگنا ہو گا، سائنس اور سوشل سائنسز میں نقل کرنے کی روک تھام کے لیے نئے نئے سافٹ ویئر بنانے ہوں گے، اور نئے نئے موضوعات کو تحقیق کے لیے چننا ہو گا، اور جو لوگ اس سرقہ نویسی جیسی لعنت میں پکڑیں جائیں انہیں سخت سے سخت سزا دینی ہو گی۔ انہیں جب تک سزا نہیں ملے گی تحقیق کے میدان میں پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ ورنہ جو خواب ہم مغربی ممالک کے ہم پلہ ہونے کا دیکھ رہے ہیں وہ کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
لمحۂ فکر یہ ہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اذہان کی نشوونما میں مذہبی مزاج اور فکری پختگی ان تینوں شعبوں سے وابستہ ہوتی ہیں نظریات سماج کی ترقی اور اس کی خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں انفرادی و اجتماعی سوچ، علم کا حصول اور جدید تعلیمی نظریات بھی اسی سماج کے ساتھ ساتھ ابھرتے ہیں۔ اگر نظریات پسماندہ اور سطحی ہوں گے تو پھر اس سے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوں گے۔
جدید دور میں علم کے پھیلاؤ کا مرکز جامعات ہیں اور ان سب جامعات کی سرپرستی ریاست کرتی ہے، جب تک ریاست اپنا کردار ادا نہیں کرے گی، یوں ہی تعلیمی جعل سازی اور دہشت گردی ہوتی رہے گی۔