پاکستانی فضائیہ کے اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر سٹاف پلانز ایئرکموڈر سید عمر شاہ نے واضح کیا ہے کہ گذشتہ برس حراست میں لیے گئے بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن کے مِگ 21 طیارے کے چاروں میزائل جہاز کے ساتھ موجود ہیں اور وہ فائر ہی نہیں ہوئے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت کی جانب سے رفال طیارہ بھی آجائے تو ہم بھی تیار ہیں۔
اسلام آباد ایئر ہیڈ کوارٹر میں آج میڈیا کے نمائندوں کو روسی ساخت کے جہاز مِگ 21 کا ملبہ دکھایا گیا اور جہاز کے ساتھ نصب آرچر 73 میزائل بھی دکھائے گئے۔
27 فروری 2019 کو پاکستان نے اپنی فضائی حدود میں آنے والے بھارتی طیارے مِگ 21 کو نشانہ بنایا تھا اور بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو حراست میں لینے کے بعد اگلے ہی دن خیر سگالی کے تحت بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ مِگ 21 کے پائلٹ ابھی نندن نے پاکستانی ایف 16 طیارے کو نشانہ بنایا تھا، تاہم پاکستانی فضائیہ نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایئر فورس کے کسی طیارے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایئر کموڈر عمر شاہ نے بتایا کہ جب بھارتی طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پاکستانی فضائیہ کے طیارے نے نشانہ بنایا، جو جہاز کے بائیں پَر کے اوپر لگا جس کی وجہ سے جب طیارہ زمین پر گرا تو بائیں جانب نصب دونوں میزائل تباہ ہوچکے تھے تاہم وہ فائر نہیں ہوئے تھے اور اس کے تمام حصے موجود تھے جبکہ دائیں جانب نصب میزائل درست حالت میں موجود تھے۔
ایئر کموڈر نے کہا کہ ’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاروں میزائلوں میں سے جب ایک بھی میزائل فائر ہی نہیں ہوا تو کسی بھی پاکستانی جہاز کو کیسے لگ سکتا ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں موجود میزائل بھارتی دعوے کی مکمل نفی کرتے ہیں۔‘
ایف 16 طیارے کے استعمال کے حوالے سے سوال کے جواب میں ایئرکموڈور نے واضح کیا کہ ’اس کے لیے پاکستانی فضائیہ کو کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارے ہتھیار ہیں جن کو ہم نے اپنے دفاع کے لیے استعمال کرنا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’رفال بھی آ جائے تو ہم تیار ہیں۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ 27 فروری کے بعد ایف 16 طیاروں کی گنتی کے لیے امریکی وفد خود آیا تھا یا انہیں بلایا گیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ امریکیوں کو پتہ ہے کہ ایف 16 کی تعداد کتنی ہے اور طیاروں کی مینٹیننس کے لیے وقتاً فوقتاً وفد آتا رہتا ہے۔ 27 فروری کے بعد بھی امریکی وفد خود آیا تھا۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ یہ ثبوت ایک سال بعد دکھانے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ تو اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر سٹاف پلانز نے جواب دیا کہ ’جب واقعہ پیش آیا اس وقت ہم حالتِ جنگ میں تھے، ایسے حالات میں فوراً چیزیں پبلک نہیں کی جاسکتیں، اس لیے مناسب وقت کا انتظار تھا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ گذشتہ برس پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگی جہاز ہفتوں ہوا میں رہے تو ایئر ڈیفنس سسٹم کیسا ہے؟ ایئرکموڈور عمر شاہ نے جواب دیا کہ جہاز ہفتوں فضا میں رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ایئر ڈیفنس سسٹم کمزور ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالت جنگ میں یہ جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے وسائل محدود ہیں۔ ہم اسلحے کی دوڑ میں نہیں جانا چاہتے لیکن خطے میں طاقت کا توازن بھی ضروری ہے۔‘
گذشتہ برس فروری میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے۔ اسی دوران 26 فروری کو بھارت نے تین اطراف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، تاہم جب پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے پیچھا کیا تو بھارتی طیارے بالا کوٹ کے جنگل میں بم گرا کر واپس چلے گئے۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے فوری طور پر بیان دیا تھا کہ ’ہم جلد ہی سرپرائز دیں گے۔‘
پی اے ایف کی جانب سے اس وقت جاری کیے گئے بیان کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے 27 فروری کی صبح بھارت کے 11 حساس مقامات پر ٹارگٹ لاک کیے اور نشانہ بنایا۔ اس کے بعد بھارتی طیارے جب پاکستانی طیاروں کے پیچھے پاکستان کی سرحد تک آئے تو وہاں موجود طیاروں نے بھارتی طیاروں کو نشانہ بنایا اور دو جہاز مار گرائے۔ ایک جہاز بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گرا جبکہ دوسرا پاکستانی حدود کے اندر گرا جس میں موجود پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔