بھارت کے درالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے جبکہ شہر میں فسادات سے متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے اپنے تین ٹویٹ پیغامات میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آج ہم جوہری صلاحیت کی حامل 1 ارب سے زائد انسانوں پر مشتمل ریاست بھارت کو نازی ازم کی وارث آر ایس ایس کے ہاتھوں میں گرتا دیکھ رہے ہیں۔ نفرت کی بنیاد پر نسل پرستانہ نظریات کا حامل گروہ جب بھی غالب آتا ہے، قتل و غارت گری اور خونریزی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں میں نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک مرتبہ جن بوتل سے نکل آیا تو خونریزی میں شدت آئے گی۔ کشمیر آغاز تھا، آج ہندوستان میں مقیم 200 ملین (20 کروڑ) مسلمان نشانے پر ہیں۔ عالمی برادری کیلئے کچھ کرنے کا بلاشبہ یہی وقت ہے۔‘
انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں مزید لکھا ’آگاہ رہو! پاکستان میں اگر کسی نے بھی غیر مسلم شہریوں پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی یا کسی عبادت گاہ کی جانب بری نظر سے دیکھا تو نہایت سختی سے پیش آئیں گے۔ ہماری اقلیتیں اس ملک کی برابر کی شہری ہیں۔‘
دوسری جانب بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے اپنی ایک ٹویٹ میں گرو تیغ بہادر (جی ٹی بی) ہسپتال کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ دہلی میں جاری فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہو گئی۔
Death toll in northeast Delhi violence rises to 20: GTB Hospital authorities
— Press Trust of India (@PTI_News) February 26, 2020
بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق منگل کو متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں اور ان کی مخالفت کرنے والے ہندو گروہوں کے کارکنوں کے درمیان تصادم، پتھراؤ، آتش زدگی اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے۔ رپورٹ کے مطابق شمال مشرقی دہلی میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
’دا ہندو‘ کے مطابق بدھ کی صبح چار مزید لاشوں کو جی ٹی بی ہسپتال لایا گیا۔
ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں نے ’دا ہندو‘ کو بتایا ہے کہ زیادہ تر اموات بندوق کی گولیوں کے زخموں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
منگل کی شب دہلی کے علاقوں موج پور، جعفرآباد، چاند باغ اور کارول نگر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ شمال مشرقی دہلی کے کچھ علاقوں میں بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔
پولیس ذرائع نے ’دا ہندو‘ کو بتایا کہ شورش زدہ علاقے میں متنازع شہریت قانون کے خلاف جاری دھرنے کو ’صاف‘ کردیا گیا ہے۔
اس دوران دہلی کے وزیراعلیٰ ارویند کیجریوال نے وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ سے دارالحکومت میں امن کی بحالی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
بعد میں ایک ٹویٹ میں دہلی کے وزیراعلیٰ نے صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے فوج کو بلانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے لکھا: ’میں پوری رات لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہوں۔ صورت حال تشویش ناک ہے۔ پولیس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ فوج کو طلب کیا جائے اور فوری طور پر متاثرہ علاقوں کے باقی حصوں میں بھی کرفیو نافذ کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ کو خط لکھ رہا ہوں۔‘
I have been in touch wid large no of people whole nite. Situation alarming. Police, despite all its efforts, unable to control situation and instil confidence
— Arvind Kejriwal (@ArvindKejriwal) February 26, 2020
Army shud be called in and curfew imposed in rest of affected areas immediately
Am writing to Hon’ble HM to this effect
بھارتی حکومت ان فسادات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور بھارتی میڈیا کو تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ سے روک دیا گیا ہے۔
’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق مودی حکومت نے نیوز چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے مواد کو نشر کرنے کے بارے میں محتاط رہیں جس نے تشدد کو ہوا دی اور ملک دشمن رویوں کو فروغ دیا۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ سکرول ڈاٹ اِن نے اپنی ایک رپورٹ میں ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایک بلوائی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ دہلی پولیس ہندو بلوائیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس ہندو کارکن کو ’جے شری رام‘ اور ’دہلی پولیس زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے بھی سنا جا سکتا ہے۔
This how rioters are roaming fearlessly on roads and destroying the city, and blatantly saying "Humare Saath Police Bhi Hai"
— Khushboo khan (@Khushbookhan_) February 25, 2020
Do we need more evidence on the role of police?#ShameOnDelhiPolice #DelhiRiots #Maujpur #DelhiPolice #AmitShahMustResign #CAAProtest #DelhiRiots pic.twitter.com/DDDL93SbQ4
اس سے قبل امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے رپورٹ کیا تھا کہ مشتعل ہندو گروہوں کے کارکنوں نے منگل کو کلہاڑیوں اور لوہے کی راڈز کے ساتھ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہلہ بول دیا۔
منگل کو یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے تھے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شہر کے دوسرے حصے میں بھارت کے ساتھ تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر مذاکرات کر رہے تھے۔ بعدازاں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ تشدد کے ان واقعات کے بارے میں سن رہے ہیں تاہم انہوں نے وزیراعظم مودی سے اس حوالے سے بات نہیں کی۔
اے پی کے مطابق بھارتی دارالحکومت کے مسلم اکثریتی علاقے بھائی جان پورا میں دھویں کے سیاہ بادل دیکھے گئے، جہاں مشتعل ہجوم نے سبزیوں کی دکانوں کو آگ لگا دی اور مسلمانوں کے ایک مقدس مزار (مسجد) کو بھی نذر آتش کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارتی نیوز ویب سائٹ ’دا وائر‘ کے مطابق منگل کی سہ پہر کو دہلی کے علاقے اشوک وہار میں ایک مسجد کو نذر آتش کیا گیا۔ جلتی ہوئی مسجد کے مینار پر ہجوم نے ہنومان کے پرچم لہرا دیے اور ’جے شری رام‘ اور ’ہندوؤں کا ہندوستان‘ کے نعرے لگائے۔
مسجد کے احاطے کے اندر اور آس پاس کی دکانوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ مقامی لوگوں نے ’دا وائر‘ کو بتایا کہ اگرچہ جائے وقوعہ پر فائر فائٹرز کے کچھ اہلکار موجود تھے لیکن پولیس نظر نہیں آ رہی تھی۔
مقامی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے مسلم برادری کے افراد کو علاقے سے ہٹا دیا ہے۔
Update Ashok Nagar, Delhi 6.00pm: A mosque has been vandalised by Hindutva terror forces, as they brazenly revisit their demolition tactics. We see complete inaction from @delhipolice, @HMOIndia , @PMOIndia and @arvindkejriwal.#DelhiRiots #DelhiBurning #DelhiViolence pic.twitter.com/jOsrAzVCP8
— Shaheen Bagh Official (@Shaheenbaghoff1) February 25, 2020
دہلی میں فسادات اور تشدد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حکمران ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے دہلی پولیس کو ’الٹی میٹم‘ دیا تھا کہ متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین سے جعفرآباد اور چاند باغ کو تین دن کے اندر خالی کرا لیا جائے ورنہ وہ خود سٹرکوں پر آ جائیں گے۔
Today afternoon, @KapilMishra_IND decided to issue a warning on camera in front of @DelhiPolice to the peaceful protestors of maujpur, seelampur.
— Shaheen Bagh Official (@Shaheenbaghoff1) February 23, 2020
No sedition case against @KapilMishra_IND for these statements? #reject_NRC_CAA_NPR#SeditionMustGo #ArrestKapilMishra pic.twitter.com/ZRkHTHIMWL
رپورٹس کے مطابق بہت سے علاقوں میں پولیس پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ہندوتوا کے حامی گروپوں کا ساتھ دے رہی ہے۔