صوبہ سندھ کی وزیر صحت عذرا فضل پیچوہو کا کہنا ہے کہ ایران سے آنے والے زائرین کو ان کے گھروں میں ہی آئسولیشن میں رکھا جارہا ہے اور اگر اس دوران ان میں کرونا وائرس کی علامات سامنے آئیں تو پھر انہیں ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں صوبائی وزیر صحت نے سندھ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے سدباب کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ ’سندھ میں ہم ہر طریقے سے اس کے لیے تیار ہیں، اب تک صرف ایک کیس مثبت آیا ہے اور اس 22 سالہ نوجوان کی حالت بھی بہتر ہے۔ 14 دن میں جب اس نوجوان کا نزلہ اور بخار بہتر ہوگا تو وہ ڈسچارج ہوجائے گا جبکہ اس کے اہل خانہ کی بھی سکریننگ کی گئی، جن میں وائرس موجود نہیں ہے۔‘
صوبائی وزیر صحت نے بتایا کہ گذشتہ دنوں جتنے بھی زائرین ایران سے آئے ہیں، ان سے رابطہ کیا جارہا ہے اور اگر ان میں علامات ہوئیں تو ان کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب تک ہمیں ایک نوجوان کے علاوہ زائرین میں سے ایسا کوئی نہیں ملا، جس میں علامات ہوں۔ بہرحال ہم انہیں 14 دن تک گھر میں آئسولیشن میں رکھ رہے ہیں۔ 14 دن تک اگر ان میں ایسی کوئی علامات نہیں پائی گئیں تو وہ گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اگر 14 دن کے اندر اندر نزلہ، زکام یا کھانسی کی شکایت آتی ہے تو ہماری ٹیمیں ان کے گھر جائیں گی، ان کے نمونے لیے جائیں گے اور اگر ان میں مثبت علامات ہوئیں تو انہیں ہسپتالوں میں منتقل کردیا جائے گا، جہاں آئسولیشن وارڈز قائم ہیں، اس طریقے سے ہم اس مسئلے کو ہینڈل کر رہے ہیں۔‘
عذرا پیچوہو نے بتایا کہ ’ابھی تک زائرین میں سے کسی میں بھی کرونا کی علامات نہیں پائی گئیں۔ پانچ ہزار کے قریب زائرین ہمارے کانٹیکٹ میں آجائیں گے، جنہیں ہم 14 دن تک فالو اپ کریں گے، اگر علامات ہوئیں تو انہیں آئسولیشن وارڈ میں منتقل کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر زیادہ لوگ ہوئے تو ہم نے الگ ہسپتال بھی قائم کردیا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو ہم اس مرض سے نجات پا جائیں گے، ہماری تیاری مکمل ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر زائرین ایران سے واپس نہیں آئے ہیں، جو کانٹیکٹ مل رہے ہیں ہم ان کا فالو اپ کر رہے ہیں، ان کا بھی ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے، جیسے جیسے وہ آتے جائیں گے، اسی طرح ہم ان کو بھی ہینڈل کریں گے۔‘
ایران میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود سندھ حکومت کی جانب سے فلائٹس روکنے جیسے اقدامات نہ اٹھائے جانے کے حوالے سے سوال پر صوبائی وزیر صحت نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت کی جانب ایئرپورٹس پر درجہ حرارت چیک کرنے کا انتظام کیا گیا تھا، ہیلتھ ڈیسک بنائے گئے تھے، آنے والے مسافروں میں سے کسی میں بھی ایسی شکایت نہیں پائی گئی کہ وہ وائرس سے متاثر ہو۔ہماری طرف سے بھی تیاری مکمل تھی، آئسولیشن وارڈ بنادیے گئے تھے۔انفیکشن کے لیے میٹریل بھی ڈال دیا گیا تھا کہ اگر کوئی کیس رپورٹ ہوا تو ہم ان کو ادھر شفٹ کردیں گے، لیکن باہر سے آنے والے لوگوں میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، یہاں تک کہ چین سے بھی لوگ آئے،کیونکہ چین سے لوگوں کو باقاعدہ مانیٹرنگ کے بعد بھیجا جارہا تھا تو ان میں بھی ایسا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہماری تیاری مکمل تھی، لہذا جیسے ہی کیس سامنے آیا تو ہم پوری طرح متحرک ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ہر طرح سے اس مرض سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔‘
27 اور 28 فروری کو اسکولوں میں چھٹی دیے جانے سے خوف کی فضا پھیلنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر صحت نے بتایا کہ ’صرف جمعرات اور جمعے کی چھٹی دی گئی تھی، ہفتہ اور اتوار کو ویسے ہی سکول بند تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایران میں احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئی تھیں، وہاں لوگوں کو آئیسولیشن میں نہیں رکھا گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ ہم نے سکول بند کیے تاکہ ایران سے آنے والے لوگوں کی تحقیقات کی جاسکیں اور گھروں میں جو بچے ہیں، انہیں بھی آئیسولیشن میں رکھا جائے تاکہ سکول کے دوسرے بچے اس سے متاثر نہ ہوں۔‘
عذرا پیچوہو نے مزید کہا کہ عام لوگوں کو ماسک کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر آپ کے کسی قریبی شخص کو کرونا ہے تو پھر ماسک پہننا ضروری ہے، اس کے علاوہ طبی عملے کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ نئے آنے والے مریضوں کو چیک کرنے سے پہلے ماسک ضرور پہنیں۔