آج دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ 17 ماہ مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں جسے امن معاہدے کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے سے توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ ساڑھے 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوگا۔
پچھلے 17 ماہ میں کئی بار یہ مذاکرات معطل، موخر اور منسوخ ہوئے۔ آخری بار صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے سال آٹھ ستمبر کو کابل میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد ان مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پھر ٹھیک تین ماہ بعد دسمبر میں یہ مذاکرات دوبارہ دوحہ میں شروع ہو گئے تھے۔
افغانستان میں ہفتہ بھر لڑائی میں کمی کے بعد آج پہلی دفعہ افغان حکومت اور طالبان کے وفود میں ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست ملاقات کا بھی امکان ہے جس کا مقصد دونوں طرف سے قید کیے گئے جنگی قیدیوں کی رہائی ہے۔
جمعے کی شام تک البتہ طالبان، افغان حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھے۔
پانچ ماہ انتظار کے بعد صدر اشرف غنی کو دوبارہ صدر منتخب قرار دیا گیا ہے لیکن ان کے حریف اس انتخاب کے نتیجے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس وقت طالبان کے مختلف گروہوں میں اتنے اختلافات نہیں ہیں جتنے حکومت اور اس کے سابقہ اتحادیوں کے درمیان ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ کو کیا ملے گا؟ اس کے بارے میں اندازہ لگانا آسان ہے لیکن اس کے افغانستان پر اور اس کے پڑوسیوں بالخصوص پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا خاصا مشکل بھی ہے اور پریشان کن بھی۔
ہمارے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان اس ابھرتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟
سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کہتی ہیں، ’کوئی بھی ایسی صورتحال کے لیے تیار نہیں ہو سکتا جو کثیر الجہتی ہو، جس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہو اور جو تیزی سے تبدیل ہو رہی ہو۔ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں کہ ہم کوشش کریں کہ کسی طرح اس امڈتے طوفان کا مقابلہ کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں اس وقت افغان حکومت کے اندر مختلف دھڑوں کے درمیان مخاصمت سے زیادہ پریشان ہوں۔ اب جبکہ وہاں امن مذاکرات ہونے ہیں، ڈر اس بات کا ہے کہ یہ گروہ اقتدار میں حصے دار بننے سے احتراز کر سکتے ہیں اور یہی گروہ اپنی ناکامی کا بوجھ پاکستان پر لاد سکتے ہیں۔‘
اس وقت سب سے بڑا خطرہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں نئی خونریزی کا ہے۔ افغانستان کی 42 سالہ خانہ جنگی پڑوسی ملکوں خاص طور پر پاکستان پر اثر انداز ہوئی ہے۔
آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ اگر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ مہاجرین اپنے ملک واپس نہیں جا سکیں گے بلکہ مزید پناہ گزینوں کی آمد کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے وقت جب پاکستان شدید معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے اور بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی خراب ہیں، افغانستان میں نئی خانہ جنگی کے بہت منفی اثرات پاکستان پر پڑیں گے۔ خدشہ یہ ہے کہ خطے کے اہم ممالک، پاکستان، ایران اور بھارت افغانستان میں اپنے حامی گروہوں کو اقتدار میں اوپر لانے اور مستقبل کے نقشہِ راہ میں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے افغانستان کو جنگ کے نئے شعلوں میں نہ دھکیل دیں۔
اس وقت صدر ٹرمپ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کے مشن پر ہیں اور انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہو گی کہ بعد میں اس ملک کا کیا ہو گا۔
یہی بات بہت سے پالیسی سازوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کو، جو اپنے اندرونی سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہِ بھارت سے ایک بار پھر یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے دور رس اور طویل المدتی مفادات اس خطے میں بھارت کے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک طرف پاکستان کو خوش کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر پر مصالحت کی ایک بار پھر پیش کش کی کیونکہ ان کی نومبر کے انتخاب میں کامیابی کے لیے افغانستان سے کامیابی سے نکلنا اس انتخابی مہم کی ایک اہم کڑی ہے۔
لیکن ہمارے ہاں اس دورے میں تین ارب ڈالرز سے زائد مالیت کے دفاعی معاہدوں اور امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیے میں بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی حمایت اور پاکستان پر ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمہ داروں اور القاعدہ، جیش محمد، لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، داعش اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دینے پر خواب خرگوش طاری ہے۔
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو بالاکوٹ واقعے کے ایک سال پورا ہونے پر شادیانے بجانے والوں کو نہ صرف یاد رکھنے چاہییں بلکہ ریاست کی کمزوریوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا اور عمل کرنا چاہیے۔
پچھلے 18 ماہ کے واقعات چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ کسی سیاسی حکومت کو مختلف سازشوں کے ذریعے اکھاڑنا آسان ہے لیکن اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی ان ہی عناصر پر عائد ہوتی ہے۔
ملکی معیشت آج چھ فیصد شرح نمو سے گر کر دو فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں بینکوں سے نجی سرمایہ کاروں کی طرف سے 13.25 فیصد شرح منافع کی وجہ سے قرضے لینے کا عمل اور نئی سرمایہ کاری ٹھپ ہو چکی ہے۔
پچھلے سال کے مقابلے پر اس مالی سال کے سات ماہ میں نجی سرمایہ کاروں کی طرف سے بینکوں سے قرضہ لینے کے عمل میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔
صرف حکومت ہی بینکوں سے قرضے لے رہی ہے۔ ملک میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو برآمدات کی بجائے قلیل المدتی ہاٹ منی اور غیرملکی قرضوں سے پورا کیا جا رہا ہے۔
جمعرات کو آئی ایم ایف سے 45 کروڑ ڈالرز منظور کرنے کی نئی قسط کی خبر آئی لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
حالانکہ حکومتی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ منی بجٹ اور بجلی اور گیس کی قیمتیں نہ بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے لیکن باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ عین ممکن ہے حکومت تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باوجود اس کا فائدہ عوام کو دینے کی بجائے اس پر مزید لیوی اور ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف کو راضی کرے۔
سکڑتی ہوئی معیشت نے عمران سرکار کو صرف لنگر خانوں، پناہ گاہوں اور گائے، بھینس، بکریاں اور مرغیاں دینے تک محدود کر دیا ہے اور ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بنانے کی بجائے لاکھوں لوگوں کو بیروز گار کرنے اور ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیلنے پر منتج ہوئی ہے۔
حکومت کی طرف سے احتساب کے نام پر انتقام نے ریاستی نوکرشاہی کو مفلوج اور سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اب انہیں اس انتقامی لہر سے کچھ ریلیف صرف عدلیہ سے ملا ہے جو اس وقت قاضی فائز عیسیٰ کیس کی صورت میں حکومت اور ریاستی اداروں کا منہ چڑا رہا ہے۔
حکومت اب آٹے، چینی کے بحران اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا مداوا کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر نئی پاندیاں لگانے اور نواز شریف کی ضمانت منسوخ کرنے اور انہیں مفرور قرار دینے جیسی حرکتیں کر کے عوامی توجہ ان مسائل سے بٹانے کو کوشش کر رہی ہے۔
لندن سے یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ نواز شریف عدالت سے مفرور قرار دینے کے بعد واپس آنے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے، اسے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس سے معاشی بحران کے ساتھ سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا۔
اب جبکہ عمران سرکار اپنی آدھی عمر کے قریب پہنچ رہی ہے، ن لیگ اور پی پی پی کسی اندرون خانہ تبدیلی کے ذریعے اقتدار میں حصہ دار بننا نہیں چاہتے ۔ ان کے خیال میں ’سلیکٹرز‘ اور ’سلیکٹیڈ‘ کی سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ انہیں اپنی ناکامیوں کے ساتھ اگلے انتخابات میں بھیجا جائے۔
پچھلے 18 ماہ بار بار یہ بتاتے ہیں کہ بغیر سیاسی استحکام کے معاشی ترقی ممکن نہیں اور بغیر معاشی ترقی کے قومی خود مختاری کا وجود نہیں ہوتا اور نہ ہی آزاد خارجہ پالیسی ممکن ہوتی ہے۔
بغیر سیاسی اور معاشی استحکام کے امڈتے ہوئے خطرات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اطلاق افغان صورتحال کے ممکنہ مضمرات پر بھی ہوتا ہے۔