ایک جانب جہاں امریکی فوجی افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں، وہیں جنگ زدہ افغانستان میں طالبان دور کی ممکنہ واپسی کے امکانات پر خواتین خود کو بہت مشکل سے ملنے والی آزادی کو کھو دینے کے حوالے سے پریشان ہیں۔
2001 میں امریکی حملے سے پہلے طالبان جنگجو پانچ سال تک افغانستان پر آہنی شکنجے سے حکومت کرتے رہے اور ان کی جانب سے کی جانے والی شریعت کی سخت گیر تشریحات کے باعث خواتین گھروں میں قید ہو کر رہ گئیں۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کابل جیسے شہروں میں ان کی زندگی تو بدلی لیکن دیہی علاقوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں دیکھا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملک بھر میں خواتین شدت پسندوں کی جانب سے خطرات کے بارے میں پریشان ہیں۔ وہ اس پرتشدد لہر کا جلد سے جلد خاتمہ چاہتی ہیں لیکن وہ خوف زدہ بھی ہیں کہ انہیں اس امن کی بھاری قیمت چکانی ہو گی۔
ایسی ہی چند خواتین کی کہانیاں ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
طالبان دور میں خواتین کو نوکری یا تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا تھا۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کا آج افغانستان کی خواتین ہر حال میں تحفظ چاہتی ہیں۔
مغربی شہر ہرات میں 32 سالہ ستارہ اکرمی نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے بہت خوشی ہو گی اگر امن قائم ہو جاتا ہے اور طالبان ہمارے لوگوں کو قتل کرنا بند کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر طالبان اپنی پرانی سوچ کے ساتھ اقتدار میں آگئے تو یہ میرے لیے پریشانی کی بات ہے۔‘
تین بچوں کی ماں اور طلاق یافتہ ستارہ اکرمی کے مطابق: ’اگر وہ مجھے کہیں کہ گھر بیٹھ جاؤ تو میں اپنے خاندان کو نہیں پال سکوں گی۔ افغانستان میں مجھ جیسی ہزاروں خواتین ہیں جو پریشان ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابل کی رہائشی 30 سالہ طاہرہ رضاعی بھی ستارہ اکرمی جیسے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’طالبان کی آمد خواتین کے کام کرنے کے حق، آزادی اور خود مختاری کو متاثر کرے گی۔ ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘
طاہرہ اپنے کیریئر کے حوالے سے بہت پرعزم ہیں لیکن طالبان کی واپسی کے امکانات سے انہیں مایوسی محسوس ہوتی ہے۔ چاہے یہ واپسی کسی حیثیت میں بھی ہو۔ ’ان کا ماضی دیکھ کر مجھے بہت مایوسی ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے حالات بہت سخت ہو جائیں گے۔‘
امریکہ کے ساتھ امن معاہدے میں طالبان نے خواتین کے حقوق کے لیے ’شرعی اصولوں کے مطابق‘ کی مبہم اصطلاح استعمال کی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اور اس اصطلاح کی تشریح کے وسیع امکانات ہیں۔
افغانستان کا بڑا علاقہ طالبان کے زیر انتظام ہے۔ کچھ علاقوں میں طالبان نے لڑکیوں کو پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے لیکن بعض اوقات کوڑے مارنے اور عوامی مقامات پر خواتین کو سنگسار کرنے کی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، جس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال ایک بار پھر ویسی ہو جائے گی۔
افغانستان کے شہری اپنی امن کی خواہش اور شدت پسندوں سے لاحق خطرات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مشرقی صوبے ننگرہار میں طورپکئی شنواری نے کہا: ’یہاں ہر خاندان اداس ہے کیونکہ وہ اپنے بچے کھو چکے ہیں، ان کے بھائی، بیٹے، شوہر اس جنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔‘
ننگرہار صوبے میں طالبان اور داعش کے درمیان شدید جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
46 سالہ طورپکئی کا کہنا ہے کہ وہ امن کے لیے دعا گو ہیں لیکن وہ پریشان ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے تو خواتین کو ’دوسرے درجے کے انسان کے طور دیکھا جائے گا اور قید کر دیا جائے گا۔‘
تاہم قندھار، جہاں سے طالبان کی تحریک نے جنم لیا، وہاں کی رہائشی ایک 17 سالہ طالبہ پروانہ حسینی ایک انوکھا لیکن مثبت رد عمل دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’میں پریشان نہیں ہوں۔ طالبان کون ہیں؟ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم سب افغان ہیں اور ہم امن چاہتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’نوجوان نسل تبدیل ہو چکی ہے اور ہم طالبان کو اپنے نظریات خود پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
لیکن وہ افراد جو طالبان دور میں پہلے بھی مشکلات اور بے رحمی کا سامنا کر چکے ہیں، ان میں اس حوالے سے کوئی شک نہیں پایا جاتا کہ طالبان کی واپسی ’تاریک اور کرب ناک یادوں‘ کو واپس لے آئی گی۔
فیکٹری میں کام کرنے والی عذرا کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے ہے۔ وہ سسکتے ہوئے وہ دن یاد کرتی ہیں جس دن وہ گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی تھیں اور شدت پسند طالبان نے ان کے گاؤں پر حملہ کیا۔ ’مجھے وہ دن اب بھی یاد ہے۔ انہوں نے تمام مردوں کو قتل کر دیا تھا اور پھر وہ میرے گھرآئے۔‘
40 سالہ عذرا خوف کے باعث اپنا پورا نام نہیں بتانا چاہتی تھیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے ان کی تین سالہ بیٹی کو ذبح کرنے کی دھمکی دی۔
ان کے خاندان نے پاکستان فرار ہو کر جان بچائی لیکن ان کے شوہر وحشیانہ تشدد کے بعد جسمانی طور پر معذور ہو چکے ہیں اور ان کی ذہنی کیفیت بھی درست نہیں۔
’آج بھی جب طالبان کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ رونا شروع کر دیتے ہیں۔ سب امن چاہتے ہیں لیکن اگر طالبان واپس آتے ہیں تو مجھے یہ نام نہاد امن نہیں چاہیے۔‘