کمرے میں داخل ہوتے ہی میری نظر اس کے چہرے کی بجائے ہاتھوں پر پڑی جس میں اس نے ایک بسکٹ کا پیکٹ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ یہ دیکھتے ہی مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ عمر کا چودہواں سال بھی بچپن میں ہی شمار ہوتا ہے۔ بسکٹ سے نظر ہٹی تو اس کا حلیہ دکھائی دیا۔ ہلکے براؤن رنگ کی میلی سی چادر جس کے نیچے اسی سے ملتے جلتے رنگ کے کپڑے، پیروں میں چپل، ماتھے پر شکنیں اور کسی بھی واویلے کے بغیر زرد گالوں سے پھسلتے ہوئے بے شمار آنسو اس کی چادر کو بھگو رہے تھے۔
وہ خاموشی سے روتے ہوئے کبھی کہتی: ’مجھے جانے دیں‘ اور پھر کرسی سے ذرا اونچا ہو کر اس کمرے سے بھاگ نکلنے کی کوشش کرتی مگر اس کے سامنے پڑی میز کی دوسری جانب بیٹھی خاتون اسے بڑے پیار سے کہتیں: ’بیٹا بیٹھ جاؤ ابھی چلے جائیں گے۔‘
یہ خاتون چائلڈ سائیکالوجسٹ ڈاکٹر شازیہ تھیں اور یہ کمرہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو لاہور کے دفتر کا تھا جبکہ زرد رنگت والی اس بچی کا یہاں دوسرا دن تھا۔
میں کمرے کے ایک کونے میں ایک کرسی پر اپنا فون لیے بیٹھ گئی اور اس 14 سالہ روتی ہوئی بچی کو یہ ظاہر کیا کہ میرا دھیان اس کی طرف نہیں بلکہ میں فون پر مصروف ہوں۔ میں نے اس بچی سے کوئی بات نہیں کی، بس اس کا مشاہدہ کیا۔
ڈاکٹر شازیہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس بچی سے کچھ سوال پوچھتیں، جیسے: ’آج ناشتہ کیا تھا؟ چائے ملی تھی ناشتے میں؟ صبح ابو آئے تھے، کیا کہا انہوں نے؟ یہاں کیوں نہیں رہنا؟ ہم لوگ اچھے نہیں لگے؟ اور چھوٹی سے ملاقات کرنے گئی تھی، اسے گود میں اٹھایا؟‘ ان سب سوالوں کا جواب صرف خاموشی تھی اور آنکھوں سے بہتے آنسو یا پھر ایک جملہ: ’مجھے جانے دیں۔‘
جب سے میں نے صحافت شروع کی ہے تب سے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کا کئی بار چکر لگایا ہے اور ہر مرتبہ ٹوٹا ہوا دل لے کر ہی یہاں سے باہر نکلی ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ صحافی کے جذبات کام پر غالب نہیں آنے چاہییں مگر کیا کریں جناب ہم بھی تو انسان ہیں اور ہم میں سے بہت سے صحافی والدین کا دل بھی رکھتے ہیں۔ یہاں جب بھی میں بچوں سے ملی ان میں سے کوئی یا تو گھر سے بھاگا ہوا تھا، یا کسی کے والدین جیل میں تھے، کوئی گمشدہ تھا، کوئی یتیم یا کوئی ایسا جسے والدین نے پیدا تو کر لیا مگر غیر ضروری یا بوجھ سمجھ کر کوڑے کے ڈھیر یا کسی گلی کے نکڑ پر جانوروں کی خوراک بننے کے لیے پھینک دیا۔ میں پہلی بار یہاں ایک 14 سالہ ماں سے مل رہی تھی، جس کے ساتھ ایک نومولود بچی بھی تھی۔
راولپنڈی کی رہائشی اس بچی کو عدالت کے حکم پر چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی پناہ میں ایک ماہ کے لیے دیا گیا ہے۔ بن ماں کی اس بچی کو اسی کے گھر میں والد کی غیر موجودگی میں محلے کے مختلف افراد نے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو میں لانے کا مقصد اس بچی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی صحت کی بحالی بھی ہے۔
بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ بچی اس وقت نفسیاتی طور پر دباؤ اور الجھن کا شکار ہے، وہ سہمی ہوئی ہے، مسلسل روئے جارہی ہے، وہ اپنے والد کے ساتھ جانا چاہتی ہے یا اپنی پھپھو کے گھر رہنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بچی نے اتنی چھوٹی سی عمر میں بے انتہا دکھ اور تکلیف دیکھی ہے۔ ابھی چند روز قبل اس نے ایک بچی کو جنم دیا ہے۔ وہ مزید کسی ذہنی دباؤ میں نہ آئے اسی لیے اسے بالکل اکیلا رکھا گیا ہے۔
سارہ احمد کے مطابق انہوں نے خود اس سے ملاقات کرکے اس سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ بچی راولپنڈی میں اپنی پھپھو کے گھر جانا چاہتی ہے، مگر سارہ کہتی ہیں کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں اس بچی کو بار بار کئی مختلف افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا، اسی لیے عدالت نے حکم دیا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ایک ماہ کے لیے اسے یہیں لاہور میں رکھے۔
سارہ کہتی ہیں: ’میں نے بچی سے یہ بھی ہوچھا ہے کہ کیا وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے؟‘ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’ابھی وہ خود کم عمر ہے، اس لیے ہم جانتے ہیں کہ وہ ابھی اپنی نومولود بچی کے ساتھ اس طرح کا رشتہ استوار نہیں کر پائے گی جیسے عام مائیں کرتی ہیں اسی لیے ہم نے نرسری میں بچی کے لیے ایک آیا کا انتظام کیا ہے جو صرف اس نوزائدہ بچی کی دیکھ بھال کرے گی۔‘
دوسری جانب سارہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری نفسیاتی ماہرین کی ایک ٹیم بھی ماں کی نفسیاتی بحالی کے کام میں لگی ہے اور تب تک ہم نے میڈیا یا کسی اور غیر متعلقہ شخص کو بچی سے بات کرنے یا ملنے سے روک دیا ہے۔‘
سارہ کا کہنا تھا: ’ہمارے ہاں کوئی نابالغ بچی اگر ریپ کا نشانہ بننے کے بعد بچے کو جنم دے تو اسے بالغ تصور کرلیا جاتا ہے۔ میں ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہوں کہ وہ نابالغ بچی اس سب کے باوجود ایک بچی ہی ہے اور اسے ایک صحت مندانہ محفوظ ماحول کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بحالی کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرنا چاہیے جیسے ایک بچے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘
سارہ نے بتایا کہ 14 سالہ بچی کے والد بار بار یہاں آرہے ہیں۔ وہ نومولود بچی کو بھی کسی کو گود دینا چاہتے تھے مگر عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر بچی کسی کو نہیں دے سکتے۔
’ایک ماہ کے بعد اس بچی کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور عدالت اس سے اس کی مرضی پوچھے گی کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتی ہے، آیا وہ بچی کو رکھنا چاہتی ہے، یہاں بیورو میں رہنا چاہتی ہے یا اپنی پھپھو کے گھر جانا چاہتی ہے، لیکن بچی کے لیے محفوظ ماحول کو ترجیح دی جائے گی اور اس کے بعد ہی عدالت کوئی فیصلہ کرے گی۔‘
بچی کی نفسیاتی بحالی میں مشغول چائلڈ سائیکالوجسٹ ڈاکٹر شازیہ کا کہنا تھا کہ یہ بچی مسلسل کئی ماہ تک بے تحاشا دکھ اور تکلیف سے گزرتی رہی ہے، اسی لیے یہ اتنی آسانی سے ہمارے سامنے اپنا دل کھول کر نہیں رکھے گی، دوسرا اب اس کے لیے اعتماد اور اعتبار کرنا مشکل ہے، جس کے لیے ہمیں اس کے ساتھ بار بار بیٹھنا پڑے گا اور یقین دلانا ہو گا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
اس بچی سے ملنے کے بعد میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی نرسری میں گئی جہاں نومولود بچوں کو رکھا جاتا ہے۔ وہاں ایک بستر پر ایک چند روز کی بچی کمبل میں لپٹی گہری نیند سوئی ہوئی تھی، اس بات سے بے خبر کہ اب تک وہ اپنی ماں کے پیار بھرے لمس سے کیوں محروم ہے۔ وہ یہ نہیں جانتی کہ اس کی ماں خود ابھی ایک بچی ہے اور اسے اپنی بیٹی کے طور پر اپنانا اس کے لیے دوسری ماؤں سے بالکل مختلف ہوگا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن سدرہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے کے مطابق یہ کوئی نئی طرز کا کیس نہیں، جس میں ایک نابالغ بچی ریپ کے بعد ماں بن گئی ہو، بلکہ سال میں ایسے ایک دو کیسز روپرٹ ہوتے رہتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس کیس میں بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کے لیے نیا اور غیر متوقع تھا اور وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہوگی، جس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی اذیت اور الجھن کا شکار ہے۔‘
بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والے ادارے ساحل کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پانچ سال سے کم عمر سے لے کر 18 سال تک کی عمر کی 1337 بچیوں سے جنسی تشدد یا ریپ رپورٹ ہوا۔