پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے حکومتی وزرا کی جانب سے متواتر اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ کچھ روز قبل پنجاب کابینہ نے بھی ان کی میڈیکل رپورٹیں مسترد کر کے ضمانت کی منسوخی کے لیے عدالت سے رجوع کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے ابھی تک اسلام آباد ہائیکورٹ یا کسی بھی عدالت سے اس بارے میں رابطہ نہیں کیا گیا۔
صوبائی وزیر صحت نواز شریف کو بیرون ملک اعلاج کے لیے تیار میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر قائم ہیں جبکہ وفاقی حکومتی عہدیدار اس رپورٹ پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ حکومت کے اس توہین آمیز رویے کی وجہ سے نواز شریف علاج جاری رکھنے پر رضامند نہیں تاہم پارٹی رہنماؤں اور فیملی کی درخواست پر وہ علاج کرا رہے ہیں۔ اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ جن رپورٹوں پر سابق وزیر اعظم بیرون ملک علاج کے لیے گئے وہ خود حکومت اور شوکت خانم کے سربراہ کی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم اپنی ہی حکومت اور اداروں پر عدم اعتماد کر رہے ہیں؟
جبکہ مشیر اطلاعات کے مطابق نواز شریف کو وطن واپس لانے کی حکمت عملی پر عمل ہو گا۔
نواز شریف کی واپسی کیوں ممکن نہیں؟
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی رپورٹوں کے بعد بیماری ثابت ہونے اور حکومت کی بیرون ملک علاج کی سفارش پر ضمانت دی تھی۔ حکومت اپنی ہی رپورٹوں سے منحرف کیسے ہو سکتی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کابینہ کے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع منسوخی سے متعلق فیصلہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عدالت میں پنجاب حکومت یہ کیسے ثابت کرے گی کہ سابق وزیر اعظم تندرست ہیں اور ان کی میڈیکل رپورٹیں غلط ہیں؟
اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ حکومتی وزرا کی بیان بازی صرف سیاسی بیانات ہیں کیونکہ انٹر پول کے ذریعے بھی کسی بیماری کی بنیاد پر عدالت سے ضمانت پر جانے والے کسی بھی مریض کو واپس بھیجنا قانونی اور اخلاقی طور پر ممکن نہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما مصدق ملک نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ملتے جلتے ردعمل کا اظہار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ وزرا کو معلوم ہے کہ میاں نواز شریف کو انہوں نے شدید علالت میں ان کی وفات کے خوف سے بیرون ملک بھجوایا۔ وزار کی جانب سے وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لیے بیانات دیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کابینہ نے ان کی ضمانت منسوخی کی سفارش وفاق سے تو کر دی لیکن صوبائی وزیر یاسمین راشد ابھی تک اپنی میڈیکل رپورٹ پر قائم ہیں جس میں میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی سفارش کی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت خوفزدہ ہے ان سے نہ ملک چل رہا ہے نہ ہی بجٹ تیار ہو رہا ہے۔ اس سال صرف 4500 ارب ٹیکس جمع ہو سکا جبکہ سات سے آٹھ سو ارب روپے زیادہ کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا۔ اس لیے حکومت نواز شریف کی صحت کے معاملہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ نواز شریف پہلے بھی جیل جانے کے لیے واپس آئے اب بھی فوری واپسی کے لیے تیار ہیں لیکن علاج کی غرض سے انہیں وہاں روکنے کے لیے پارٹی رہنما کوشاں ہیں۔‘
حکومتی حکمت عملی:
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی کچھ عرصہ قبل لندن کے ہوٹل میں کھانا کھانے کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزرا کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزرا کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ نواز شریف تندرست ہیں وہ قید سے بچنے کے لیے لندن میں رہائش پذیر ہیں۔
مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان متعدد بار اپنے بیانات میں کہہ چکی ہیں کہ میاں نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سزا سے بچنے کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں اور عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ عوام کا درد رکھنے والے اپوزیشن لیڈر واپس آ کر عوام کر درد بانٹیں۔ عوام کا درد رکھنے کا دعویٰ کرنے والے لندن میں سیروتفریح کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو سفارشات بھیجی ہیں جن پر عمل درآمد کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔