عورت مارچ قریب آتے ہی اعتراض کرنے والے ہر سمت سے لاٹھیاں لے کر میدان میں کود گئے ہیں۔ کسی کو بظاہر کسی نعرے سے مسئلہ ہے تو کوئی کسی پلے کارڈ کی بنیاد پر عورت مارچ کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔
کچھ باریش شخصیات بھی مذہب کے نام پر اسے فحاشی قرار دے رہی ہیں اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، گو ان دھمکیوں کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کی بحث ایک الگ معاملہ ہے۔ ٹی وی ہو یا اخبار، سوشل میڈیا ہو یا کوئی اور سماجی پلیٹ فارم، کوئی نجی محفل ہو یا کوئی گھریلو تقریب ہر جگہ ہی عورت مارچ کو کم اچھے اور زیادہ برے لفظوں میں یاد کیا جا رہا ہے۔
جس نعرے سے سب سے زیادہ مسئلہ پیدا ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے وہ ٹھہرا ایک ایسا نعرہ جس پر اول تو کسی جنس کا اجارہ نہیں ہے اور اس نعرے کو بنیاد بنا کر عورت مارچ کو لتاڑنے میں بھی اکثریت ان افراد کی ہے جن کو عورت اور عورت مارچ دونوں سے ہی مسئلہ ہے۔ یہ طبقہ پوری کوشش کر کے بھی اپنی اس سوچ کو کتنے لحافوں میں لپیٹے، چاہے اسے ہماری روایات یا ثقافت کی خلاف ورزی قرار دے یا اسے اسلام مخالف مارچ کا نام دیا جائے ان الزامات کا مقصد صرف یہ ہے کہ خواتین کو یہ احساس دلایا جائے کہ تمہارا کوئی مارچ ہمیں وہ کرنے سے نہیں روک سکتا جو ہم صدیوں سے اپنا پیدائشی حق سمجھ کے کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد عورت کو یہ بتانا ہے کہ ہم تمہارے ’نہ‘ کے حق کو قبول نہیں کرتے۔
اب ‘میرا جسم میری مرضی‘ سے کسی کو کوئی مسئلہ ہو بھی کیوں سکتا ہے؟ کیا یہ صرف خواتین کا نعرہ ہے؟ جواب ہے نہیں۔ تو اس نعرے پر اعتراض اور اس کو عورت مارچ کی مذمت کرنے کے لیے استعمال کرنے کا مقصد کیا ہے؟
مقصد بہت واضح ہے۔ بھائی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عورتیں بس وہ کریں جتنا ان سے کہا جائے۔ ان کا کام بس چائے بنانا اور اس میں بتائی گئی مقدار کے مطابق چینی ڈالنا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو یہ روایات کی کھلی خلاف ورزی گردانا جائے گا۔ مطلب یہ کہاں کا انصاف ہے بھئی کہ عورت اپنی مرضی کا لباس پہنے؟ لباس کی بات اس لیے کہ اعتراض عورت مارچ میں شریک خواتین کے لباس پر بھی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا عورت کو اپنے جسم پر کوئی حق نہیں؟ کیا وہ اپنے اچھے برے کی تمیز سے آگاہ نہیں یا اس سے بہتر ہم جانتے ہیں کہ اسے اس قسم کا لباس پہننا چاہیے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب مجھے اور میرے جیسے باقی مردوں کو ہمارے جسم پر حق ہے تو عورت کو کیوں نہیں؟ اس نعرے کو صرف عورتوں تک محدود کرنا بھی ایسی ہی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے کسی اخبار یا ٹی وی چینل پر بچوں سے کی جانے والی ریپ کی خبر پڑھی یا سنی نہ ہو؟ اگر آپ دعوی کرتے ہیں کہ آپ ایسی خبروں سے آگاہ نہیں تو بچوں سے ریپ کے اعداد و شمار کا حساب رکھنے والے ادارے ساحل کی ویب سائٹ پر جا کر خود یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار دیکھ لیں۔ ریپ کا نشانہ بننے والے بچوں میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہی ملتی ہے۔ وہاں تو لباس یا کسی نعرے کو بھی الزام نہیں دیا جا سکتا۔ تو مہربانی کریں کوئی اور بہانہ تلاش کریں۔
کیا ہم روزانہ کی بنیاد پر خواتین کو کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل کرنے کی خبریں نہیں سنتے جب کسی عورت کو محض اس بنیاد پر قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے کہنے پر کسی ایسے شخص کو اپنے جسم پر حق دینے سے انکار کر دیتی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتی؟ کیا یہ طے کرنا کہ کسی خاتون کے جسم پر کس کو حق حاصل ہے صرف اس کا حق نہیں ہونا چاہیے یا اس کے فیصلے کا حق بھی اس کے سوا ہر ایک کو ہے؟
کیا اس نعرے کا حق کا ان خواتین کو حاصل نہیں جنہیں محض رشتہ ٹھکرانے پر تیزاب گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی پوری زندگی چند ہی لمحوں میں تباہ کر دی جاتی ہے؟ ان کے جسم پر کسی اور کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ پوری زندگی کے لیے ان کے جسم کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا فیصلہ کر سکے؟ کیا بازاروں اور مارکیٹوں میں خریداری کرتی خواتین کا یہ حق نہیں کہ وہ بازار میں شاپنگ کے دوران ان کو چھونے کے لیے کی جانے والی کوششوں، کسے جانے والی آوازوں ، نمبر لکھی پرچیوں اور تاڑتی نظروں سے محفوظ رہیں؟
میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہرگز کسی راہ چلتے شخص کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کی آزادی نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد بازاروں میں لنگی بنیان میں گھومنا یا سڑک کنارے ہاتھوں میں ڈھیلے اٹھائے حاجات ضروریہ بجا لانا ہے۔ یاد رہے یہ سہولیات صرف مردو ں کو حاصل ہیں اور ان پر ہمارے حق کو جھٹلانا بھی یقینی طور پر ہماری روایات کی خلاف ورزی قرار دیا جائے گا۔ کیا مرد عوامی مقامات پر رفع حاجت کرنے اور ’ڈراے کلینگ‘ کا حق رکھتا ہے؟ شکر ہے اس جیسے رویوں میں کمی آ رہی ہے لیکن کیا بھٹے پر کام کرتے مزدوروں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس نعرے کے عین مطابق بہت کم اجرت پر طویل دورانیے کی غلامی کرنے سے انکار کر دیں؟ لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ان کو اس بات کا یقین ہو کہ یہ معاشرہ ان سب پر ہونے والے مظالم کے خلاف ان کا ساتھ دے گا نہ کے متاثرین کو ہی الزام دے کر انہیں اپنے ساتھ ہونے والی ان ناانصافیوں کا ذمہ دار قرار دے گا۔
کچھ لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ عورت مارچ مغربی ایجاد ہے تو ایسا کہنے والوں سے سوال ہے کہ جس کی بورڈ کو استعمال کر کے آپ کی جانب سے مخالفت کی بمباری کی جا رہی ہے کیا وہ گجرات میں ایجاد ہوا تھا یا شیخوپورہ میں؟ جس فیس بک اور ٹوئٹر پر آپ لوگوں کو اسلام سے خارج کرتے ہیں کیا وہ اندرون لاہور کے کسی شخص کی ایجاد ہے؟ اور تو اور جس قسم کا لباس پہننے کی توقع پاکستانی خواتین سے کی جاتی ہے وہ پاکستان کے کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے؟
تو بات سیدھی سی ہے کہ بھائی خواتین کو بھی اپنے جسم پر بالکل اس طرح سے حق حاصل ہے جس طرح مجھے یا آپ کو ہے۔ بطور مرد پاس سے گزرتے اگر ہمارے ساتھ کسی کا شانہ ٹکرا جائے تو مردانہ انا کے ہاتھوں مجبور ہم ٹکرانے والے کو مڑ کر اس وقت تک گھورتے رہتے ہیں جب تک وہ غائب نہ ہو جائے، دل میں جو جمع تفریق کی جاتی ہیں وہ الگ ہے۔ تو اگر کوئی خاتون اپنے جسم پر اس حق کی دعویدار ہے تو ہمیں کیا مسئلہ ہے؟ دوران سفر اپنی مرض کی نشست نہ ملنے پر منہ بسورنے والے حضرات خواتین سے یہ تقاضا کیوں کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلوں کے لیے کسی ایسے فرد کی محتاج ہو جو ان کے روزمرہ کے مسائل سے کسی صورت آگاہ ہی نہیں۔ ظاہر ہے پانی کی گہرائی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو پانی میں اتر چکا ہو۔ کنارے پر کھڑے رہ کر تیراکی سکھانا سی گریڈ فلموں اور ایک عورت بیزار لکھاری کے دو ٹکے کے ڈراموں میں تو ممکن ہے لیکن اصل زندگی میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
اس لیے دل بڑا کریں۔ اصل مسائل پر توجہ دیں جب مسئلے ختم ہو جائیں گے تو ان مسئلوں سے جڑی شکایات اور ان شکایات پر مبنی نعرے بھی ختم ہو جائیں گی۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے آپ تو زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اگر بلی نے کبھی راستہ یا شکار بدل لیا تو یقینی طور پر آپ اس کو اپنے جسم پر اپنی ملکیت کا یقین نہیں دلا سکیں گے۔