عبداللہ النور کوئٹہ سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سفر پر نکلے لیکن یہ سفر انہوں نے تنہا سائیکل پر طے کیا۔
اس سفر کے دوران ان کے پاس کوئی سپانسر تھا اور نہ ہی حکومتی تعاون۔ بس ساتھ تھا تو موسم کی شدت کا اور 25 سے 30 کلو وزنی سامان کا، جو ان کے راستے میں قیام کے لیے ضروری تھا۔
عبداللہ النور کی جب انڈپینڈنٹ اردو سے ملاقات ہوئی تو وہ اس وقت 1300 سے 1400 کلومیٹر کا سفر 10 دن میں طے کرتے ہوئے وہ کوئٹہ سے لاہور پہنچ چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادبی میلے کی گہما گہمی میں وہ اپنا بینر تھامے کبھی تنہا کھڑے ہوتے تھے تو کبھی نوجوانوں کو اکٹھا کر کے انتہائی جذبے سے امن، محبت اور پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے پہ لیکچر دے رہے ہوتے تھے۔ بچے ان کی بات توجہ سے سنتے، ان کے ساتھ تصویریں بنواتے اور آگے بڑھ جاتے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیا مسئلہ درپیش تھا جو اتنا طویل سفر شدید سردی میں سائیکل پہ کرنے نکل کھڑے ہوئے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ان کا مقصد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔ ’پاکستان میں بھائی چارے اور امن کو فروغ دینا ہے اور بھارت کو پیغام پہنچانا ہے کہ انسانیت کے ناطے وہ کشمیر میں لوگوں پر ظلم بند کرے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام امن، یکجہتی اور محبت سکھاتا ہے اور وہ یہی پیغام لے کر نکلے ہیں۔ پانچ فروری کو ان کا یہ سفر شروع ہوا اور سبی، جیکب آباد، سکھر، رحیم یار خان، بہاولپور کے بعد ملتان سے ہوتے ہوئے وہ لاہور پہنچے تھے۔ اس سفر کا اختتام پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پہنچ کر ہونا تھا۔
اس سے پہلے عبداللہ النور ایسا ہی ایک سفر موٹر سائیکل پر کر چکے ہیں، جس کے دوران انہوں نے 47 دن میں 132 شہروں کا سفر کیا۔ اس سفر میں ان کا پیغام پرامن پاکستان اور امن پسند بلوچستان تھا۔