وہ ایک بڑے ادارے میں کام کرتا تھا۔ اس ادارے میں اسے ہر قسم کی سہولیات میسر تھیں مگر اس کا دل وہاں پر خوش نہیں تھا۔ حالانکہ اسے وہ کام پسند بھی تھا۔
ایک ایسے ادارے میں ملازمت ملنا اس کی خوش قسمتی تھی جہاں سب سفارش ڈھونڈتے ہیں، اسے وہاں قابلیت سے ملازمت مل گئی مگر اسے ٹیچنگ سے لگاﺅ تھا۔ وہ کتابیں پڑھنے والا بندہ تھا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ اس نے ایم فل کیا اور پھر پی ایچ ڈی میں انرول ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ ایک نجی تعلیمی ادارے کے ساتھ شام کے وقت کلاسیں بھی لینے لگا۔
ٹیچنگ کا جرثومہ بھی مرتا رہا اور ساتھ ہی اچھی خاصی رقم بھی ہاتھ آتی رہی۔ وہ چونکہ محنتی اور قابل تھا اس لیے اسے پی ایچ ڈی کرنا کوئی مشکل کام نہیں لگا۔
مگر صورت حال تب عجیب ہوئی، جب اس کے سپروائزر نے اس کے کام میں کیڑے نکالنے شروع کر دیے حالانکہ وہ سب کلاس فیلوز میں اسائنمنٹ اور پریزینٹشن میں اپنی مثال آپ تھا۔ یوں جوں توں کرکے کورس ورک مکمل ہو گیا اور ریسرچ کرنے کی باری آئی تو سپروائزر نے اسے ٹف ٹائم دیا مگر وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔ یوں پی ایچ ڈی کا میدان بھی اس نے سر کر لیا۔
اب ایک نیا میدان اس کے سامنے تھا۔ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے سے دو پیپرز کو شائع کروانا تھا وہ بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رجسٹرڈ جرنلز میں۔ اسے معلوم تھا کہ یہاں مقالہ شائع کروانا ایک مشکل کام ہے مگر اتنا مشکل ہوگا اسے اب بات کا اندازہ نہیں تھا۔ اس کے ایم فل کے بعد کچھ غیر ملکی جرنلز میں ریسرچ آرٹیکل شائع ہوئے تھے جو کہ اچھا خاصا ایمپیکٹ فیکٹر رکھتے تھے، مگر ان پیپرز نے کسی بھی انٹرویو میں اسے فائدہ نہیں دیا کیونکہ انٹرویو میں اسے کہا گیا کہ ’یہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رجسٹرڈ جرنلز میں شائع نہیں ہوئے اس لیے اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا،‘ اور بے چارہ وہاں سے واپس آ جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر اس نے ریسرچ پیپر لکھنا ہی بند کر دیا کہ پاکستان میں اس کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے، مگر پی ایچ ڈی کی ڈگری اب ان پیپرز کے بغیر ممکن نہیں تھی، حالانکہ اس نے بہترین کام کیا تھا۔ پیپر اپنے مقالے سے نکال کر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے رجسٹرڈ جرنلز کو بھجوا دیے مگر کوئی جواب نہیں آتا تھا۔ صرف پیپر کے موصول ہونے کی خودکار ای میل موصول ہو جاتی اور پھر ایک لمبی چپ۔
وہ پھر ای میل بھیجتا مگر جواب ندارد۔ اس دوران چھ مہینے گزرے، پھر ایک سال بیت گیا مگر پیپر نے شائع ہونا تھا، نہ ہوا۔ اسے معلوم ہوا کہ اب یونیورسٹی کے کسی جرنل کے ایڈیٹر سے مل لو کوئی سفارش یا پیسہ دے کر کام نکالو، کیونکہ پیپر کا شائع ہونا یہاں بہت مشکل ہے۔ تب اس نے ادھر ادھر لوگوں کو دیکھنا شروع کیا کہ کس کو کہہ کر پیپر شائع کرایا جائے تاکہ اس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جائے۔
ایک دن مجھ سے بات ہوئی کیونکہ عرصہ سے یونیورسٹی میں اور صحافت میں کام کر رہا تھا۔ شاید آخری امید میں ہی تھا۔ اس نے کہا کہ ’پی ایچ ڈی پھنسی ہوئی ہے، پیپر شائع نہیں ہو رہا۔ کیا کروں کہیں سے کوئی چکر ڈھونڈ نکالو تاکہ اس مصیبت سے جان چھوٹے۔ اس نے مجھے ذہنی مریض بنادیا ہے۔‘
کچھ دیر کے لیے تو میں بھی چکرا گیا کہ اگر اس جیسا قابل بندہ اتنا پریشان ہے تو ہمارا کیا حال ہو گا۔ خیر، اللہ اللہ کرکے پاکستانی قوم کی طرح کہیں سے جگاڑ لگ گیا اور ایک ایچ ای سی کے اچھے ایمپیکٹ فیکٹر جرنل میں پیپر شائع ہو ہی گیا جس کے بعد ایک دن اس کی کال آئی کہ ’میں نے پاکستان میں معرکہ سر کر لیا، پی ایچ ڈی کے لیے ریسرچ پیپر کی ریکوائرمنٹ پوری کرلی، اب آپ فون میں میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ لکھ سکتے ہو۔‘
یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ ہمارے بہت سے دوستوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرلیں مگر اب پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا خواب بن کر رہ جائے گا، کیونکہ ایچ ای سی کی نئی پالیسی کے مطابق اب کسی پاکستانی جرنل میں شائع شدہ تحقیق کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جائے گا بلکہ صرف بین الاقوامی جرنلز میں شامل تحقیقی مقالے ہی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے لازمی سمجھے جائیں گے۔ پاکستانی جرنلز کی وقعت ختم ہو گئی ہے جس کے لیے یونیورسٹیوں نے اربوں روپے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ادا کیے ہیں اور بہت مشکل ترین پراسیس کے بعد ہی یہ جرنلز ایکس، زی، ڈبلیو اور وائی کیٹگری تک گئے ہیں۔
اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تحقیق کش پالیسی جون 2020 کے بعد سے لاگو ہو جائے گی جس کے مطابق اب پاکستانی تحقیقی رسائل کی بجائے بین الاقوامی تحقیقی جرنلز میں پاکستانی تحقیق شائع ہو گی جس کے لیے پاکستانی محققین بڑی رقم ادا کریں گے جس کے باعث پاکستان میں تحقیقی جرنلز کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے۔
اب پاکستانی جرنلز کو بین الاقوامی طور پر انِڈیکس ہونے کے لیے تین سے چار سال لگیں گے۔ اب تحقیقی مقالے سکوپس اور جے سی آر کی کیٹگری میں ہی یونیورسٹی میں تقرری اور پروموشن اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے قابل اعتبار ہوں گے، اس کے علاوہ کوئی بھی تحقیقی مقالہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
ان جرنلز پر یونیورسٹیوں نے کروڑوں روپے لگائے ہیں تب جا کر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انہیں ان کیٹگریز میں جگہ دی ہے، ان میں پاکستانی طلبہ کی تحقیق چھپتی تھی تب جا کر انہیں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگری ملتی تھی۔ اب نئی پالیسی کے باعث ان طلبہ کے لیے ریسرچ شائع کرنا بھی مشکل ترین ہو جائے گا اور ڈگری کے حصول کے لیے انہیں دو سے تین سال لگیں گے کیونکہ ان جرنلز میں تحقیقی مقالوں کا شائع کرنا بہت ہی مشکل امر ہے۔
اگر کوئی محقق فاٹا پر تحقیق کرتا ہے تو امریکی رسالے کو کیا پتہ فاٹا میں میڈیا یا صحت کے حالات کیسے ہیں کہ وہ انہیں شائع کر سکے۔ پاکستانی جرنلز میں ایک کام تو تھا کہ یہاں کے ریوور پاکستانی ہوا کرتے تھے، اس لیے یہاں علاقائی تحقیق چھپ جایا کرتی تھی۔ اب پاکستانی یونیورسٹیوں اور ایکیڈمیا کے یہ جرنلز کسی کام کے نہیں رہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ پالیسی سازوں نے ضلعی کمییٹوں، جرنلز کے ایڈیٹروں سمیت ایچ ای سی کی کسی بھی کمیٹی کو اس پالیسی کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی اور اسے لاگو کرنے کے احکامات جاری کر دیے، جس سے پاکستان میں تحقیق اب خواب ہی بن جائے گی۔