آدھے سر کا درد ہو اور دوسری جانب دفتری ذمہ داریاں ہوں۔ ایسے میں کچھ لوگ بدحواسی میں دھڑا دھڑ درد کم کرنے والی گولیوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ تاکہ جلد از جلد معمول کے کام سنبھال لیں لیکن پریشانی میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب بیک وقت درد کم کرنے والی دو گولیاں نگلنے سے بھی افاقہ نہیں ہوتا۔
کسی بھی مسئلے کا حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اس کے وجوہات کو نہ جان لیا جائے۔ یوں تو مائیگرین یعنی آدھے سر کے درد سے ہر دوسرا تیسرا شخص متاثر ہوتا ہے، تاہم بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ دراصل یہ درد ہوتا کیوں ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق آدھے سر کا درد اس وقت شروع ہوتا ہے جب دماغ میں غیر معمولی طور پر فعال خلیے چہرے کے سہ شاخی عصب (trigeminal nerve) کو سگنل بھیج کر اس کو حرکت میں لاتے ہیں۔ نتیجتاً اس عصب کے فعال ہونے سے دماغ میں ایک خاص کیمیکل خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کو کیلسی ٹونن جین ریلیٹڈ پیپٹائڈ (calcitonin gene-related peptide) یا سی جی آر پی کہا جاتا ہے۔ سی جی آر پی دماغ میں خون کی شریانوں میں سوجن کا باعث بنتا ہے اور یوں مریض آدھے سر کے درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک سینئیر نیورولوجسٹ ڈاکٹر نصراللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آدھے سر کے درد کا تعلق بنیادی طور پر اعصاب سے ہے جو کہ عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ بچوں اور بڑوں دونوں میں پایا جاتا ہے، تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ اس بیماری سے زیادہ تر خواتین متاثر ہوتی ہیں۔
میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر سلیم خان کہتے ہیں کہ ان کے پاس روزانہ کم از کم 40 کے قریب مریض ایسے آتے ہیں جن کو آدھے سر کے درد کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’اس وقت پاکستان کے میڈیکل سٹوروں میں جو چند ایک گولیاں مائیگرین کے لیے دستیاب ہیں، ہم وہ لکھ دیتے ہیں۔ کبھی مریض کو افاقہ ہو جاتا ہے، کبھی نہیں ہوتا۔ لیکن ساتھ ہی ہم مریض کو طرز زندگی بدلنے کی تجویز بھی دیتے ہیں جو کہ سب سے زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر عمران خان جو کہ ایک ای این ٹی سپیشلسٹ ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس خیبر پختونخوا سے بہت بڑی تعداد ایسے مریضوں کی آتی ہے جو سر درد کی شکایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’وہ میرے پاس اس لیے آتے ہیں کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ یہ سر درد سائنو سائٹس کی وجہ سے ہے۔ تاہم معائنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل مائیگرین یا کلسٹر سر درد ہے۔ چونکہ یہ ایک اعصابی بیماری ہے لہٰذا اکثر مریضوں کو ان کی علامات کی بنیاد پر اعصاب کو پرسکون کرنے والی دوا تجویز کر دی جاتی ہے۔ یہ ایک بالواسطہ طریقہ علاج ہوتا ہے جس سے اکثر مریضوں کو شفا مل جاتی ہے۔‘
آدھے سر کے درد کی وجوہات کیا ہیں؟
یہ بیماری دماغ میں ایک کیمیکل کے خارج ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم عام طور پر ڈاکٹر مختلف عوامل کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں، جیسے کہ ذہنی دباؤ، ڈپریشن، بےسکونی، نیند کی کمی، کم بلڈ پریشر، نظر کی کمزوری، لینز پہننے سے آنکھوں کی تھکن، ذہنی تھکن، بعض پودوں سے الرجی، اور بعض اوقات کیفین اور کھٹی خوراک اس کا باعث بن جاتے ہیں۔ خواتین کی ماہواری کے دوران یا اس کے کچھ دن پہلے بھی اکثر اوقات مائیگرین کا مسئلہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس دوران جسم میں ہارمونل تبدیلیاں پید اہوتی ہیں۔
آدھے سر کے درد کی وجہ بننے والے عوامل یوں تو بہت سارے ہیں لیکن اس بیماری سے متاثرہ شخص یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہو گا کہ اس بیماری کو ٹھیک کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے میڈیکل سٹوروں میں ایسی بہت ساری ایلوپیتھک دوائیاں موجود ہیں جو کہ صرف اور صرف مائیگرین کے لیے تجویز کی جاتی ہیں، تاہم اس کے باوجود مریضوں کو اس سے کوئی خاص آرام نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مریض کبھی ایک درد کم کرنے والی دوا تو کبھی دوسری استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
نیا علاج
حال ہی میں امریکہ میں مائیگرین سے فوری نجات کا نسخہ تیار ہوگیا ہے۔ رواں سال 27 فروری کو امریکہ کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی بائیو ہیوین نے دنیا بھر کے مائیگرین کے مریضوں کو خوشخبری سناتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ایک ایسی گولی بنانےمیں کامیاب ہوئے ہیں جس کو کھانے سے دماغ میں خارج ہونے والا کیمیکل سی جی آر پی بلاک ہو جائے گا، جس سے آدھے سر کے درد سے فوری نجات مل جائے گی۔
نرٹیک او ڈی ٹی (Nurtec-OTD) نامی اس دوا کی منظوری حال ہی میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے دے دی ہے۔
کمپنی کے مطابق یہ گولی منہ میں رکھنے سے خود بخود گھل جاتی ہے۔ اس سے مریض کو ایک گھنٹے کے اندر درد سے نجات مل جائے گی، اور اس کا اثر بعض مریضوں میں 24 گھنٹے اور بعض میں 48 گھنٹوں تک رہے گا۔ درحقیقت مائیگرین کا درد عموماً 48 گھنٹوں بعد خود ہی غائب ہو جاتا ہے۔
دوسرے علاج
یوں تو آدھے سر کے درد کے لیے ڈاکٹر طرز زندگی بدلنے کی تجاویز دیتے رہتے ہیں اور اکثر لوگ جڑی بوٹیوں اور گھریلو نسخے بھی دریافت کرتے رہتے ہیں تاہم اس سلسلے میں یوگا کی تربیت دینے والی مشہور پاکستانی خاتون شہناز من اللہ کا کہنا ہے کہ مائیگرین کا تعلق اعصاب کی بے سکونی اور بے آرامی سے ہے، لہذا اگر یوگا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو اس بیماری سے تاعمر نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’زندگی میں اکثر بیماریوں، پریشانیوں، تفکرات، بڑھاپے، ناکامیوں یا دیگر کئی وجوہات کی بنا پر ہمارے جسم کا نظام درہم برہم کا شکار ہو جاتا ہے۔ دماغ کی نسیں تن جاتی ہیں۔ جس کا سارا جسم اثر لیتا ہے۔ لہذا جب ورزشیں کی جاتی ہیں، جسم کو مخصوص طریقے سے ہلایا جاتا ہے، سانس کی مختلف مشقیں کی جاتی ہیں، تو جسم ہلکا ہو جاتا ہے اور دماغ سے ساری تھکن اتر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوگا اپنانے سے کبھی اعصابی مسئلے نہیں ہوتے۔‘
شہناز کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں ذہنی دباؤ سب کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ بہتر زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ دماغ کو پرسکون رکھا جائے جو کہ یوگا کے ذریعے ممکن ہے۔