عالمی ادارہ صحت نے کرونا کو عالمی خطرہ قرار دیا تو پاکستان میں بھی طبی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ اس ایمرجنسی کے نفاذ سے ملک بھر کے تعلیمی ادارے پانچ اپریل تک بند کر دیے گئے جبکہ تمام بڑی تقریبات، شادیوں کے فنکشنز اور اجتماعات وغیرہ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ اس وقت ملک بھر میں خوف کا عالم ہے اور ہر کوئی یہی سوچ رہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟ دنیا بھر سے کرونا کے حوالے سے موصول ہونے والی خبروں کو سن کر بیشتر پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی حالت کرونا نے خراب کر دی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی صوبائی حکومت کی جانب سے طبی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، جس کے تحت ہسپتالوں میں خصوصی انتظامات کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں اور تقریبات وغیرہ پر پابندی لگادی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے کچھ پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد سکول و کالج جانے والے بچوں کے والدین کو کچھ سکھ کا سانس آیا ہے۔
لاہور کی رہائشی اقصیٰ احسن دو بچوں کی والدہ ہیں، جن کے دونوں بچے سکول جاتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے بچے تو جمعے کے روز بھی سکول نہیں گئے۔ ’میرے شوہر بہت جلد کسی چیز کے حوالے سے خوف کا شکار نہیں ہوتے، پرسکون رہتے ہیں مگر کرونا کو لے کر وہ بھی پریشان ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا کہ بچے پی ایچ ڈی نہیں کر رہے اس لیے سکول بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، میرا بھی یہی خیال ہے کہ صحت ہے تو سب کچھ ہے۔ حکومت کو اور سخت اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ بغیر کسی احتیاط کے بازاروں اور مارکیٹوں میں گھوم رہے ہیں جیسے کرونا ہمیں تو ہو ہی نہیں سکتا۔‘
دوسری جانب ارم عدنان کا پانچ سالہ بیٹا بھی جمعے کے روز سکول نہیں گیا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اپنے بچے کی صحت اور کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کو لے کر خوف ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے گھر میں کچھ راشن بھی سٹور کرلیا ہے۔ ’میں سوچتی ہوں کہ اگر لاک ڈاؤن ہو گیا تو گھر میں کچھ ایسی اشیا اور اجناس تو ہوں کہ گزارا ہو سکے۔ میں نے تو بچوں کو باہر کھیلنے اور سائیکل چلانے سے بھی منع کر دیا ہے۔ باہر جانا ہو تو میں یا میرے شوہر جاتے ہیں، بچوں کو تو ہم نے ساتھ لے جانا ہی بند کر دیا ہے۔‘
محکمہ صحت پنجاب کے مطابق کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لاہور کے ہسپتالوں میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کو 24 گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے جبکہ ایمرجنسی کی صورت حال تک ہسپتالوں میں ملازمین کی چھٹیاں بھی منسوخ رہیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی جی ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر ہارون جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کرونا وائرس کے علاج کے لیے کوئی دوا نہیں ہے، البتہ اس کی علامات جیسے نزلہ، زکام، کھانسی اور نمونیے کا علاج کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ادویات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، وینٹی لیٹرز بھی اور تمام عملہ تیار ہے جبکہ ہسپتالوں میں اضافی بیڈز پر مشتمل وارڈز قائم کردیے گئے ہیں۔ دوسری جانب تمام ایئرپورٹس پر سکریننگ اور ویجیلنس بڑھا دی گئی ہے۔‘
محکمہ صحت پنجاب کی سچویشن رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع میں کرونا کے 70 سے زائد مشتبہ مریض ہیں جن میں سے پانچ مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں، تاہم ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر ہارون کے مطابق ابھی تک پنجاب میں کرونا کا کوئی کنفرم کیس سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ محمدعثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب کے دونوں شعبے پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ اس وقت مل کر کام کر رہے ہیں۔ تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈز اور ہائی ڈپنڈنسی یونٹس بنا دیے گئے ہیں اور جن لوگوں نے وہاں ڈیوٹیاں دینی ہیں ان کو تربیت دینے کے لیے پنجاب کے پانچ اضلاع میں یہ ٹریننگ سیشنز کروائے گئے ہیں۔
کیپٹن ریٹائرڈ عثمان کا کہنا تھا: ’ہم نے دو یونٹس بنائے ہیں جس میں سے ایک یونٹ کے لوگ ہائی ڈپنڈنسی یونٹس کی ورکنگ کو چیک کرتے ہیں کہ وہاں موجود سہولیات میں کوئی کمی تو نہیں اور سب کام ٹھیک سے ہو رہے ہیں دوسرا یونٹ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے علاج کرنا ہے، ہم انہیں بھی چیک کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے بتائے ہوئے مینول کے مطابق کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہم نے ایس او پیز بنائیں ہیں کہ جب کوئی مریض سامنے آئے گا تو وہ داخلے سے لے کر ہائی ڈپینڈنسی یونٹ تک کن مراحل سے گزر کر جائے گا۔‘
ڈی جی خان میں پنجاب کا سب سے بڑا قرنطینہ مرکز
ان کا کہنا تھا کہ ڈیرہ غازی خان میں 800 افراد کی گنجائش کا حامل سب سے بڑا قرنطینہ وارڈ بنایا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی جو لوگ ایران سے سڑک کے ذریعے آرہے تھے، ان کو تفتان میں 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھا گیا۔ ویسے تو پلان یہ تھا کہ انہیں سات دن کے لیے تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں رکھا جائے گا اور سات دن کے لیے یہاں پر لیکن بعد میں حکومت نے اسے تبدیل کرکے 14 دن کے قرنطینہ کا انتظام یہاں پر ہی کیا ہے تاکہ سب کی سکریننگ کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں قائم آئسولیشن یونٹس یا کمرے ایک ایک مریض کے لیے ہیں اور اگر وائرس کی تصدیق ہو جائے تو انہیں ہائی ڈپینڈنسی یونٹ میں منتقل کیا جائے گا جہاں ایک سے زیادہ مریض رکھ کر ان کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ ’ہمارے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بیڈ سے دوسرے بیڈ کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی معیار کو فالو کر رہے ہیں۔‘
کیپٹن ریٹائرڈ عثمان کے مطابق پورے پنجاب میں 40 ہسپتالوں میں 40 ہائی ڈپینڈنسی یونٹس بنائے گئے ہیں جن میں سے پانچ لاہور میں ہیں جبکہ تمام ہسپتالوں میں 40 آئسولیشن یونٹس بنائے گئے ہیں۔
محکمہ صحت کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں 618 سنگل بیڈز پر مشتمل آئسولیشن وارڈز قائم کیے گئے ہیں جبکہ ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تمام اضلاع کے ٹیچنگ، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر، تحصیل ہیڈ کورٹرز اور دیہی صحت کے مراکز میں دو ہزار سے زیادہ تربیت یافتہ ڈاکٹر بھی بھیجے گئے ہیں۔
دوسری جانب مریضوں کو ہسپتال لانے لے جانے کے لیے تمام اضلاع میں 41 مخصوص ایمبولینسز کا انتظام بھی کیا گیا ہے جنہیں مریض کو منتقل کرنے کے بعد ڈس انفیکٹ کرنے کا انتظام بھی کیا جائے گا جبکہ اس کام میں ریسکیو 1122 بھی محکمہ صحت کی مدد کرے گا۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جو عملہ کرونا وائرس کے مشتبہ یا تصدیق شدہ مریضوں کا علاج کرے گا ان کے لیے مخصوص لباس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اسے ہم پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ (پی پی ای) کہتے ہیں، جس میں سر کی ٹوپی سے لے کر کر پاؤں کے جوتوں تک سب کچھ شامل ہے۔ ویسے تو انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس پروٹیکشن کٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے مگر ڈاکٹروں کو محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘
سیکرٹری ہیلتھ کا کہنا تھا کہ ’اگر ایمانداری سے بات کی جائے تو ہمیں غیر معمولی احتیاطی تدابیر کرنے کی ضرورت ہے اور اب چونکہ بارڈرز بند کیے جارہے ہیں تو اس کا فائدہ ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’محکمہ صحت پنجاب اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ اس بیماری سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، ہم عوام سے کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں چھپا رہے۔ جو حالات ہیں ہم کھول کر سب کے سامنے رکھ رہے ہیں۔‘
دوسری جانب لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر کرونا وائرس کے حوالے سے ہونے والے انتظامات سے کچھ خوش نہیں دکھائی دیتے۔
میو ہسپتال کے ایک سینئیر ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہسپتال چھوٹے موٹے نزلہ زکام، درد یا بخار وغیرہ کا علاج کرنے کے لیے بنے ہیں۔ یہ وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں بنے۔ ہمارا صحت کا نظام نہ اس کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تصور موجود ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی وبا آجائے جس میں دو ہزار مریض نمونیے کے ساتھ آجائیں اور ان کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہو تو ہمارا صحت کا نظام ویسے ہی بیٹھ جائے گا۔‘
مذکورہ ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں تو نارمل حالات میں ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض پڑے ہوتے ہیں، آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ایک وبا جس میں ہزاروں لوگ بیمار ہو جائیں اور وہ ہسپتالوں میں سما جائیں گے؟ ہسپتالوں میں تو جگہ ہی نہیں ہے۔ گذشتہ بیس برسوں میں حکومت نے ہسپتالوں میں ایک پائی کی کوئی اَپ گریڈیشن نہیں کی، کچھ ڈاکٹر بھرتی کر لیے یا پھر کچھ نرسیں بھرتی کر لیں۔ یہ صرف نظروں کا دھوکہ ہے اور میڈیا پر آ کر وزرا کارروائیاں ڈال رہے ہیں۔ آپ دیکھیں میوہسپتال کے آؤٹ ڈور میں پانچ ہزار مریض تقریباً روزانہ آتے ہیں اور یہاں 52 کمرے ہیں تو وہ پانچ ہزار مریض کس طرح علاج کرواتے ہوں گے؟ فرض کریں کسی بڑے سرکاری ہسپتال میں پانچ ہزار مریض زکام کے ساتھ آجائیں اور انہیں نمونیا بھی ہوجائے تو وہاں سے تو ڈاکٹر ہی بھاگ جائیں گے کہ نہ جگہ ہے اور نہ وینٹی لیٹرز ہیں، ہمیں تو لگتا ہے کہ اللہ ہی ہمارے صحت کے نظام کو چلا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت نے کرونا سے نمٹنے کا انتظام نہیں کیا، آئسو لیشن وارڈز بھی بنے ہیں اور ہائی ڈپینڈنسی وارڈز بھی، ڈاکٹرز بھی تربیت لے کر آئے ہیں۔ ہاں اگر 20 سے 30 مریض آجائیں تو کام چل جائے گا لیکن اگر مریضوں کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں ہوئی تو بہت مشکل پیش آئے گی اور یہ اس کو ہینڈل نہیں کر پائیں گے۔‘