کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویسے تو پوری دنیا میں حفاظتی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں اور کئی ملکوں میں مکمل لاک ڈاؤن ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی اس معاملے کوسنجیدگی سے نہ صرف مانیٹر کیا جا رہا ہے بلکہ ضروری اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔
حکام کی جانب سے سکولوں، کالجوں، اجتماعات اور دیگر سیاسی و سماجی تقریبات پر پابندی عائد ہوچکی ہے، دوسری جانب انتظامیہ زبردستی شادی ہالوں کو بھی بند کروا رہی ہے، لیکن اس بندش کی وجہ سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے شادی ہال مالکان کافی پریشان نظر آتے ہیں، جنہیں روزانہ لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
’پنجاب میں شادی ہالوں کی نگرانی کرنی پڑ رہی ہے‘
اسسٹنٹ کمشنر لاہور ذیشان رانجھا کے مطابق تقریبات روکنے کے لیے شادی ہالوں کی نگرانی کرنی پڑ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’دو روز میں شہر کے 45 شادی ہال تقریبات کے انقعاد کی وجہ سے سیل کرنا پڑے جبکہ تقریبات روکنے کے لیے شادی ہالوں کی نگرانی بھی کرنی پڑ رہی ہے، حالانکہ انہیں نوٹس کے ذریعے آگاہ بھی کیا گیا تھا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ہال بند رکھنے کی پابندی پر عمل کریں لیکن بیشتر مالکان نے اس کی پروا نہیں کی۔‘
دوسری جانب لاہور میں شادی ہالز ایسوسی ایشن کے عہدیدار میاں جمیل کا کہنا تھا کہ ’جن تقریبات کی پہلے سے بُکنگ ہوچکی ہے، انہیں ایک دو دن پہلے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے؟ تقریبات کی بکنگ کے وقت ہی ایڈوانس رقم لی جاتی ہے، لہذا ہم تقریب کرانے کے پابند ہیں۔ جو لوگ شادیاں کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تقریبات خود منسوخ کریں کیونکہ کرونا کا مسئلہ تو سب کے ساتھ ہے اور ہر ایک کو انسانی جانوں کا خیال ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی پر عمل کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی خاندان بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خود ہی تقریبات منسوخ کر رہے ہیں لیکن بعض کہتے ہیں کہ ان کے بچے یا بچی کے سسرال والے نہیں مان رہے تو ہم تقریب کیسے منسوخ کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ہر شادی ہال کو ملازمین کی تنخواہوں و دیگر اخراجات کی مد میں روزانہ دو سے تین لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
واضح رہے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی قاسم گیلانی کی شادی کی تقریب سمیت ملک بھر میں ہزاروں تقریبات منسوخ ہوچکی ہیں اور بیشتر والدین گھروں میں ہی سادگی سے نکاح کرکے شادی کی تقریبات منعقد کر رہے ہیں۔
اس صورت حال میں ویسے تو بازاروں کو بند نہیں کیا گیا لیکن پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں بازار ویران دکھائی دیتے ہیں۔
ایک تاجر فاخر عباس نے بتایا کہ فروخت پہلے سے 60 فیصد کم ہوگئی ہے۔ ’شادیوں کا سیزن تھا لیکن تقریبات پر پابندی کے باعث خریداری میں واضح کمی آئی ہے جبکہ کرونا وائرس کے خوف سے معمول کی خریداری کرنے والے بھی گھروں سے نہیں نکل رہے جو بازاروں اور سڑکوں کے ویران ہونے کی بڑی وجہ ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے شادی ہالوں میں 3500 تقاریب منسوخ
دوسری جانب خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے پیش نظر صوبے بھر میں شادی ہالوں کی بندش کی وجہ سے تقریباً 3500 تقاریب منسوخ کی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا شادی ہالز ایسوسی ایشن کے صدر خالد ایوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبے بھر میں تقریباً 350 شادی ہال رجسٹرڈ ہیں، جنہیں حکومتی فیصلے کے پیش نظر بند کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے تمام تقاریب منسوخ ہوگئی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہمارے اعدادو شمار کے مطابق 31 مارچ تک تقریباً 3500 شادی کی تقاریب منسوخ کی گئی ہیں۔ اگر اگلے پانچ دن جو وفاق نے چھٹی کا اعلان کیا ہے، اسے بھی شمار کیا جائے تو پانچ اپریل تک تقریباً 5000 تک شادی کی تقریبات بنتی ہیں، جو منسوخ ہوجائیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک شادی ہال میں 31 مارچ تک 10 سے 15 شادی کی تقاریب منعقد ہونی تھیں لیکن ایسو سی ایشن کی جانب سے انہیں منسوخ کرنا پڑا۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’حکومت نے جلد بازی میں یہ فیصلہ کیا ہے حالانکہ اس کے اور بھی طریقے ہو سکتے تھے مثلاً ہم ہر کھانے کی میزوں کو الگ الگ کردیتے، جس طرح ریسٹورنٹ میں ہوتا ہے۔‘
خالد کا کہنا تھا کہ دیگر شعبوں کی طرح ہالوں میں شادی کی تقاریب کی بندش کی وجہ سے ہال مالکان کو ان 15 دنوں میں اندازے کے مطابق 15 سے 20 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔