’پتہ اس تھپڑ سے کیا ہوا؟ اس ایک تھپڑ سے نہ مجھے وہ ساری ان فئیر چیزیں صاف صاف دکھنے لگ گئیں جن کو میں ان دیکھا کر کے موو آن کرتی جا رہی تھی۔‘
یہ بھارتی فلم ’تھپڑ‘ کا ڈائیلاگ ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار تاپسی پنو نے ادا کیا ہے۔ تاپسی ہمیشہ انوکھے موضوعات پر کام کرتی ہیں۔ ان کی فلمیں ایسے مسائل کو اجاگر کرتی ہیں جنہیں ہم مسئلہ سمجھتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں۔ اسی فلم کی مثال لے لیں۔ یہ فلم خواتین پر ہونے والے اس تشدد کی بات کرتی ہے جسے ہمارا معاشرہ نارمل سمجھتا ہے۔ کتنا نارمل ہے نہ ایک شوہر کا اپنی بیوی پر اونچی آواز میں چلانا، بھرے ڈرائنگ روم میں بیوی کی کسی عادت یا بات کا مذاق اڑانا، تھکی ہاری بیوی کو ’سارا دن کرتی ہی کیا ہو‘ کا طعنہ دینا یا کبھی غصے میں تھپڑ ہی مار دینا۔ یہ ہمارے گھروں میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی ’نارمل‘ اقسام ہیں۔
’تھپڑ‘ میں تاپسی پنو ایک ہاؤس وائف کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایک ایسی نارمل ہاؤس وائف جو شادی کے بعد اپنی پوری توجہ اپنے گھر پر مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ وہ روز صبح اٹھتی ہے اور معمول کے تمام کام نبٹاتی ہے۔ شوہر ناشتہ کر کے دفتر کے لیے نکلتا ہے تو وہ اس کا لنچ باکس اٹھائے اس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ شوہر بھی کوئی جلاد قسم کا شوہر نہیں ہے بلکہ ویسا ہی ’نارمل مرد‘ ہے جیسے ہم سب کے گھروں میں ہوتے ہیں۔
پراٹھا بنانے کی کوشش میں بیوی کا ہاتھ جل گیا تو وہ فوراً تڑپ اٹھا، گھنٹے بعد بیوی نے گاڑی چلانے کی خواہش ظاہر کی تو اسے طعنہ مار دیا جو بیوی کو محسوس بھی نہیں ہوا۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا جب شوہر نے بھری محفل میں بیوی کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ وہاں اس عورت کی زندگی رُک گئی۔ وہ جس بلبلے میں اپنی زندگی گزار رہی تھی، اس دن اس کا وہ بلبلہ ٹوٹ گیا۔
کہنے کو تو وہ بس ایک تھپڑ تھا اور ایسے تھپڑ ہماری خواتین صدیوں سے کھاتی چلی آ رہی ہیں لیکن وہ چاہ کر بھی اس تھپڑ کو بھلا نہ سکی۔ وہ تھپڑ کو بھلا دے یا کچھ ہلکا پھلکا سنا کر بات ختم کرے یا شوہر سے علیحدگی اختیار کر لے، یہ فیصلہ بھی اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ کسی بھی عورت کے لیے آسان نہیں ہوتا، مگر ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب وہ فیصلہ کر لیتی ہیں لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد ان کے دل میں جو کشمکش جاری رہتی ہے، یہ فلم اس کے بارے میں ہے۔
دیسی معاشرے میں ایسے معاملات پر سٹینڈ لینا تو دور کی بات اس بارے میں سوچنا بھی برا تصور کیا جاتا ہے۔ ایک طعنے، ایک گالی اور ایک تھپڑ پر عورت کا ناراض ہونا حتیٰ کہ ری ایکٹ کرنا بھی اوور ری ایکشن سمجھا جاتا ہے۔ اس سوچ والے معاشرے میں ایسی فلم کا بننا ہی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ لوگ اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ فلم خواتین کو ’ذرا ذرا‘ سی بات پر طلاق لینے کی تحریک دیتی ہے لیکن جو عقل رکھتے ہیں انہیں یہ فلم کچھ اور ہی سبق دیتی ہے۔ ہم مردوں کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور عورتوں کو بے عقل۔ مرد جو کریں، جیسے کریں بس وہی طریقہ ہے، اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ مرد ہے، اونچی آواز میں بول سکتا ہے، غصہ کر سکتا ہے، برا سلوک کر سکتا ہے۔ عورت کو مرد کے رویے کے مطابق ’ایڈجسٹ‘ ہونا چاہیے۔ یہ وہ قاعدہ ہے جو ہماری عورتوں کو گھٹی میں ہی گھول کر پلا دیا جاتا ہے۔ جو عورت اس سبق کے مطابق زندگی گزارے وہ اچھی قرار پاتی ہے اور جو اس سبق کو چیلنج کرے وہ بری عورت کہلائی جاتی ہے۔
یہ فلم ہمیں اس سبق کو چیلنج کرنا سکھاتی ہے۔ ہم اپنی عورتوں کو سمجھاتے ہیں کہ کچھ ہو جائے، ان کے منہ سے اف تک نہیں نکلنی چاہیے۔ انہیں قربانی دینی چاہیے، برداشت کرنا چاہیے، صبر کرنا چاہیے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے جو شاید انہیں بروزِ قیامت ہی دیکھنا نصیب ہو۔
ہماری عورت صدیوں سے یہی صبر اور برداشت کا سبق پڑھتی چلی آ رہی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم نے اس کا یہ سبق اپ ڈیٹ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے مردوں کی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ پھر بھی کوئی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آخر عورت ہی کیوں برداشت کرے؟ عورت ہی کیوں قربانی دے؟ عورت ہی کیوں صبر کرے؟ کیا عورت کا پیدا ہونا ہی اس کا قصور ہے؟ اور اس کی قیمت اسے زندگی کے ہر مرحلے پر ادا کرنی ہے؟ چاہے وہ تشدد کو سہہ کر ہی ادا کرنی پڑے؟
یہ فلم ان سوالات کو اٹھاتی ہے اور انسان کو ان کے جوابات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ گھریلو تشدد غلط ہے، چاہے کسی بھی صورت میں ہو۔ ہم نے اس تشدد کو ’مرد کا غصہ‘ کہہ کر نارمل کر دیا۔ یہ فلم اسی نارمل کو ایب نارمل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جنہیں اس ایشو میں دلچسپی ہو وہ یہ فلم ضرور دیکھیں اور اپنے گھر والوں کو بھی دکھائیں۔ ایسی فلمیں بار بار نہیں بنتیں۔