پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ان کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر ترقی نہ دیئے جانے کے خلاف جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا ہے۔
جسٹس وقار سیٹھ نے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو ایک خط تحریری کیا ہے جس میں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ کے ججوں کی حیثیت سے تعیناتی کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اعلی عدلیہ کے ججوں کا احتساب کرنے والے آئینی ادارے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سربراہ بھی ہیں۔
جسٹس وقار سیٹھ سابق صدر اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ سننے والے خصوصی ٹریبونل کے سربراہ تھے۔ انہوں نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کو آئین توڑنے کے لیے موت کی سزا دی تھی۔
جسٹس وقار سیٹھ نے خط میں لکھا: ’درخواست گزار کی توقع ہے کہ انہیں سنیارٹی، اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے مقرر کیا جائے۔ لیکن ان کو سنا جانے کا موقع دیئے بغیر تین بار نظرانداز کر دیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کی سپریم کورٹ میں ترقی کو سینارٹی کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ درخواست گزار اس ناانصافی کے بعد سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے مستقبل میں بھی نااہل ہوگئے ہیں۔ کیونکہ اگر انہیں سپریم کورٹ میں تعینات کیا جاتا ہے تو وہ اپنے سے جونئیر جج صاحبان سے جونئیر ہوں گے۔
سنیارٹی کے اصول پر ججوں کی ترقی پر وکلا تقسیم ہیں۔ وکلا کے ایک حصے کا مستقل نظریہ ہے کہ سنیارٹی واحد عنصر نہیں ہونا چاہیے اور معیار میں قابلیت اور ساکھ کو شامل کیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں دو سابق چیف جسٹسز آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جو اپنے اپنے ادوار میں ججوں کی ترقیاں کرنے کے واسطے سنیارٹی کے اصول پر نہیں چلتے تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان فقیر کھوکھر کیس میں پہلے ہی یہ کہہ چکی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی تقرری ایک نئی تقرری ہے۔ اور ایک جونیئر جج کو بھی سپریم کورٹ کا جج لگایا جا سکتا ہے۔