اس وقت اٹلی میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے۔ رستوں، گلیوں اور بازاروں کو آسیب سونگھ گیا ہے۔ جن بالکونیوں میں سرِ شام بے فکری کے جام چھلکتے تھے وہاں سے اب خدشات جھانک رہے ہیں۔
ہر دو انسانوں کے بیچ خوف نے فصیل اٹھائی ہوئی ہے اور موت سائے کی طرح تعاقب میں ہے۔ کل تک ماسک، صابن اور سینیٹائزر معمول کا قصہ تھے، اب زندگی کی ضمانت بن گئے ہیں۔ پہلے جیے جا رہے تھے اب جینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کوششوں میں سب سے خوبصورت کوشش یہ ہے کہ اطالوی شہری اب موت کو پہلو میں بٹھا کر سُر ساگر کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ تم کس کا لہو پینے آئی ہو، ہم پیار سکھانے والے ہیں۔
اٹلی میں ایک شہری کے پاس گھر میں گٹار رکھا ہوا تھا جو زمانے سے خاموش تھا۔ اب جب فرصت اور احتیاط کے دن ہیں تو وہ گٹار اٹھا کر بالکونی میں بیٹھ گیا۔ اس نے امید کی کچھ دھنیں چھیڑیں تو زندگیاں در و بام پر بھاگی بھاگی چلی آئیں۔ کسی نے وائلن اٹھایا کسی نے دف نکالا کسی نے بانسری پکڑی کسی نے باجا سنبھالا اور کسی نے پیانو بچھا دیا۔
سب نے تال میں تال ملا کر زندگی کا راگ چھیڑنا شروع کر دیا۔ سب اپنے حصے کی دھنیں بکھیرتے جا رہے ہیں اور یاس و ناامیدی کا دائرہ تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ یعنیٰ گلے ملنے والوں، ہاتھ ملانے والوں، بوسہ دینے والوں اور چھونے والوں کے بیچ جو فاصلے پیدا ہو گئے تھے، سُریلے احساسات کا تبادلہ کر کے اُن فاصلوں کو اب وہ مٹا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم اٹلی کے ایک دوست نے غم غلط کرنے کے واسطے اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ میں پہنچا تو وہ گٹار گود میں لیے بیٹھا تھا۔ بے ساختہ میں نے کہا، ’ارے گٹار؟‘ کہنے لگا، ’بجانا کچھ خاص نہیں آتا مگر بجانے کا وقت آ گیا ہے۔‘
بے یقینی کے موسم میں جینے کی ایسی کوشش گارشیا مارکیز کے شہرہ آفاق ناول ’وبا کے دنوں میں محبت‘ کا دیباچہ معلوم ہوتی ہے۔ اٹلی کے لوگ وبا کے دنوں میں وصل کی راتوں کو نہیں رو رہے، وہ بڑھتے ہوئے فاصلوں میں زندگی کے نئے معنیٰ دریافت کر رہے ہیں۔ مارکیز نے وباؤں کو صرف کتاب ہی نہیں کیا، وباؤں کو انہوں نے پڑھا بھی بہت ہے۔ انہیں یہ بات بے حد متاثر کرتی ہے کہ وبا کے عرصے میں لوگ جینے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔
غالب پر مشکلیں اتنی پڑی تھیں کہ آسان ہو گئی تھیں، مگر چونکہ انسان تھے، ساغر و پیمانہ نہیں تھے اس لیے گردشِ مدام سے گھبرا بھی جاتے تھے۔ گو دن بھر فاقہ مستی کرتے تھے مگر نیند انہیں رات بھر نہیں آتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبِ غم جیسی بری بلا جب اور پھیل جاتی تو خود سے سوال کرتے کہ مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔ کبھی انہیں لگتا کہ ہونے مجھے ڈبو دیا ہے۔ نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ جب کوئی امید بر نہیں آتی تھی تو بے طرح پکاراٹھتے تھے
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
موت کے انتظار میں بیٹھے اُسی غالب کے وطن کو جب وبا نے گھیرا تو ایسا نہیں تھا کہ کوئی امید بر آئی ہو یا کوئی صورت نظر آ گئی ہو۔ بلکہ وہ مصر ہو گئے کہ ساغر و مینا ابھی میرے آگے رہنے دو۔ وبا کے دنوں میں لکھے اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا، ’میں موت سے نہیں ڈرتا، لیکن وبائے عام میں مرنا مجھے قبول نہیں۔‘
یہی وہ بات ہے جس کے لیے مارکیز کہتے ہیں، ’بڑی وباؤں نے ہمیشہ لوگوں کو اور جینے پر اکسایا ہے۔ وباؤں کی یہی مابعدالطبعیاتی جہت ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘
وبا کے عرصے میں مارکیز کا ناول اپنی طرف کھینچتا ہے، مگر ہر طرف سے جب ’سیلف آئسولیشن‘ کی آواز کان میں پڑ رہی ہو تب گارشیا کے سب سے مشہور ناول ’تنہائی کے سو سال‘ کے عنوان کی کشش بھی دوچند ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بے خوابی کی صورت میں ایک وبا مارکیز کے اس ناول میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔
جس طرح پاکستان میں ان دنوں ہر طرف خوابوں کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کرونا جیسی وبا اُس تیزی سے نہیں پھیلی جس تیزی سے خوابوں کی وبا پھوٹی ہے۔ شیعہ اور سنی علما کے بیچ تو جیسے خوابوں کا کوئی ٹی 20 میچ ہی شروع ہوگیا ہو۔ جیسے علمائے فرنگی محل اور شیعہ فرماروانِ اودھ آمنے سامنے آگئے ہوں۔
سب ن م راشد کی طرح گلی گلی ’خواب لے لو خواب‘ کا آوازہ لگاتے پھر رہے ہیں۔ ایران کے کسی آیت اللہ کے خواب کی ابھی تعبیر نکلی نہیں ہوتی کہ پاکستان کا کوئی قدرت اللہ اگلا خواب دیکھ چکا ہوتا ہے۔
میں تو بخدا اٹلی کی بدقسمتی پر حیران رہ گیا ہوں۔ کرونا نے چین کے بعد سب سے زیادہ اٹلی کو متاثر کیا۔ حالانکہ اٹلی اور چین کے بیچ سات برجوں کا فاصلہ ہے۔ جو ممالک چین کی ناک کے بالکل نیچے ہیں وہ اٹلی کی نسبت کم متاثر ہوئے ہیں۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں پھیلی خوابوں والی وبا سب سے پہلے ان ممالک میں داخل ہوتی جن کی نظریاتی سرحدیں پاکستان سے جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن نہیں، یہ وبا نظریہ، ثقافت، زبان اور تاریخ کی ساری سرحدوں کو پھلانگتے ہوئے سیدھا اٹلی میں جا کر پھوٹی ہے۔
اٹلی میں تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک شخص نے خواب دیکھا ہے۔ کرونا ایک بھیانک روپ دھار کر خواب میں آیا ہے اور اپنا نام، مستقل پتہ، عارضی پتہ، تاریخ پیدائش، جائے پیدائش، وجہِ پیدائش، آج کل کی مصروفیات اور مستقبل کے عزائم بتا رہا ہے۔
کرونا کہتا ہے، چین کے شہر ووہان میں تین چینی باشندوں نے عائشہ نامی ایک لڑکی پر جنسی تشدد کیا، لڑکی نے جی ہی جی میں ایسی فریاد کی کہ عرش ہل گیا، خدا کے حکم سے میں پیدا ہوا، تین جنسی درندوں کو اسی وقت پھڑکا دیا، باہر نکلا، تین سکیورٹی گارڈوں کو پٹخا، پھر شہر بھر میں جہاں جہاں سے گزرا داستان چھوڑتا چلا گیا۔
پھر اذن ہوا کہ میں ایران کا رخ کروں، ایران میں بدعقیدہ لوگوں کے ساتھ حساب کتاب کرنے بعد اب میں اٹلی آیا ہوں تاکہ کفار کو ان کی اوقات بتائی جا سکے۔ یہ واقعہ بھی ایک مور ہی ہے۔ جنگل میں ناچا کس نے دیکھا۔
جس ایران میں کرونا کو بدعقیدہ لوگوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا حکم ہوا تھا، اسی ایران کے ایک بڑے بزرگ کے خواب میں امام زمانہ نے آکر کرونا کا علاج بھی بتا دیا ہے۔
فرمایا، ’لوگوں سے کہو قرآن کھول کر سورہ بقرہ کی تلاوت کریں، انہیں کسی ورق پر کہیں ایک بال نظر آئے گا۔ بال پانی میں گھول کے پی جائیں، کرونا آپ کا بال بیگا نہیں کرپائے گا۔'
اب کم نصیبی یہ آن پڑی ہے کہ سورہ بقرہ میں یہ بال کچھ شیعہ دوستوں کو تو صفحہ پلٹتے ہی مل گیا، سنی دوستوں نے وضو کر کے بھی ڈھونڈ لیا مل کے نہیں دیا۔
90 کے دہائی میں ایسے ہی کچھ خواب ہمیں کراچی سے شائع ہونے والا ایک جہادی جریدہ سنایا کرتا تھا۔ افغانستان میں شمالی اتحاد اور طالبان کے بیچ گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ طالبان سارے ہی علاقوں میں جھنڈے گاڑ چکے تھے، مگرا حمد شاہ مسعود کے پنج شیر پر 17 کے 17 حملے ناکام گئے۔
ناامیدی کے موسم میں جہادی جریدے نے ماتھے پر جلی حروف کے ساتھ سرخی جمائی، ملا عمر کو خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اگلے جمعرات تک پنج شیر فتح ہو جائے گا۔ سال کا پورا کلینڈر میز سے اتر کر کوڑے دان میں چلاگیا مگر بشارت ہونے والی وہ جمعرات آئی نہ بھری مراد آئی۔ تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے۔
شہر کی دیواروں پر تعویذ گنڈوں کے اشتہار دراصل اس بات کا اعلان ہوتے ہیں کہ شہر کے باسی محنت اور تدبیر سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ جھاڑ پھونک اور چھومنتر سے بظاہر ہم اپنے درد کی دوا کرتے ہیں، حقیقت میں مگر ہم اپنی ناکامی کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کی پاکیزہ سی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
وبا کے دنوں میں سوشل میڈیا، ٹی وی سکرینز اور سماجی حلقوں میں پھیلی ہوئی خوابوں کی وبا بتا رہی ہے کہ تقدیر کے مارے تدبیر کے کتنے کھوٹے نکلے ہیں۔ مولانا آزاد نے فیصلہ کن گھڑیوں میں اٹھنے والی بے سمت آوازوں کا نوحہ لکھتے ہوئے کہا تھا، ’ان کا ماتم بھی کیا کیجیے فقدانِ ہمت کو جنہوں نے تقدیر کا نام دے دیا ہے۔‘
لاہور میں ایک فلم پر کام ہو رہا تھا۔ طے ہوا کہ پانچ بجے سارے اداکار ریہرسل کے لیے پہنچیں گے، سات بجے شوٹنگ ہوا کرے گی۔ مزاحیہ اداکار امان اللہ خان بروقت پہنچ کر ریہرسل کرتے تھے، باقی بمشکل تمام شوٹنگ پر ہی پہنچ پاتے تھے۔
روایت یہ تھی کہ شوٹنگ سے پہلے اجتماعی دعا ہو گی۔ ایک دن شوٹنگ شروع ہونے لگی تو امان اللہ خان غائب پائے گئے۔ کسی نے بتایا اندر سو رہے ہیں۔ شریک اداکار نے جا کر انہیں جگایا تو ہڑ بڑاکر بولے، ’کی ہویا؟‘
اداکار نے کہا، ’شوٹنگ واسطے دعا ہون لگی اے، تسی وی آ جاؤ۔‘ امان اللہ خان نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا، ’تسی دعا کرو، میں تے ریہرسل کیتی اے۔‘
جاپان میں کبھی زلزلے کا ’عذاب‘ آیا کرتا تھا۔ خواب بیچنے کی بجائے انہوں نے تدبیر کی۔ اب وہاں زلزلے تو آتے ہیں عذاب نہیں آتے۔ عذاب والی ٹریجڈی فلم کا سیٹ پھر سے دنیا کے سامنے سجا ہوا ہے۔ جن اداکاروں نے ریہرسل کی، وہ اب بالکونیوں میں بیٹھے وائلن بجا رہے ہیں۔ ریہرسل کے وقت جو باہر خوابوں کی وبا پھیلا رہے تھے انہیں شوٹنگ کے وقت کبوتروں، بالوں اور ٹوٹکوں وظیفوں کا سہارا ہے۔
وبا کے پانیوں پر خوابوں کے جزیرے کیسے تعمیر ہوتے ہیں، کوئی ہم سے سیکھے۔