فیس بک پر ایک دوست کا گذشتہ روز پریشان کن پیغام موصول ہوا۔ میری یہ دوست ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں مقیم ہیں۔ کچھ علامتیں بتانے کے بعد پوچھنے لگیں کہ کہیں انہیں کرونا (کورونا) تو نہیں ہو گیا۔
انہیں لاک ڈاؤن میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ ہوچکا ہے۔ اس ایک ہفتے میں وہ چھ بار چھینک اور چار بار کھانس چکی ہیں۔ ہر چھینک کے بعد وہ ایک گولی پھانک لیتی ہیں۔ چین میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد میں نے بھی ایسے ہی اپنی ادویات کا سٹاک 10 دنوں میں آدھا کر دیا تھا۔ وہ تو شکر ہے اگلے چار دن بھی خیریت سے گزر گئے ورنہ بقایا ادویات بھی ختم ہو جاتیں۔ اس کے علاوہ جسم کا جو حال ہوتا وہ الگ۔
میری دوست اس قدر پریشان تھیں کہ انہوں نے ہسپتال جانے کا ارادہ بنا لیا۔ میں نے انہیں گھر پر ہی 14 دن پورے کرنے کا کہا۔ ہمارے اوپر بھی یہ فیز آیا تھا، لاک ڈاؤن میں رہنے والے بیشتر لوگوں پر آتا ہے، 14 دن بعد انسان خود بخود اس فیز سے باہر نکل آتا ہے۔
ایسا صرف ان کے یا میرے ساتھ نہیں ہو رہا، بلکہ دنیا بھر میں جو لوگ خود ساختہ تنہائی کو اپنائے ہوئے ہیں یا حکومتی پابندیوں کی وجہ سے ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بالکل ایسا ہی محسوس کر رہے ہیں۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔ ہر چھینک، ہر کھانسی اور پیٹ میں اٹھنے والا مروڑ تک کرونا کی آمد کی اطلاع لگتی ہے۔
اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے تو پریشان نہ ہوں، آپ سے پہلے بہت سے لوگ اس فیز سے گزر چکے ہیں۔ نارمل حالات میں ہم اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں پر غور بھی نہیں کرتے لیکن اب چونکہ پوری دنیا کرونا کرونا کر رہی ہے تو ہم پلکوں کی جنبش تک محسوس کر رہے ہیں۔ بس ہوش سے کام لیں اور وہ کریں جو اس وقت آپ کو کرنا چاہیے۔
کوئی بھی حتمی قدم اٹھانے سے پہلے عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر جائیں اور کووڈ 19 کی علامات اور پھیلاؤ کے بارے میں پڑھیں۔ اگر ان علامتوں میں سے کوئی علامت آپ میں موجود نہیں تو آپ خیریت سے ہیں۔
خدا نخواستہ کوئی علامت نکل بھی آئے تو خود کو اپنے کمرے تک محدود کر لیں۔ نہ خود کمرے سے باہر نکلیں اور نہ کسی کو کمرے میں آںے دیں۔ گھر والوں سے کہیں کہ وہ آپ کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا سامان دروازے کے باہر رکھ دیں۔ ان کے جانے کے بعد وہ سامان اٹھا کر کمرے کے اندر لے آئیں۔ چودہ دن اسی طرح گزاریں۔ اگر اس دوران کووڈ 19 کی بقیہ علامات ظاہر نہ ہوں تو آپ بھلے چنگے ہیں۔ دوسری صورت میں ایمبولینس بلائیں اور ہسپتال داخل ہو جائیں۔
وہم کی صورت میں ہسپتال بھاگنا فائدے کی بجائے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس وقت ہسپتال دنیا کی خطرناک ترین جگہ ہیں۔ اگر آپ ایک چھینک یا کھانسی پر بھاگے بھاگے ہسپتال پہنچ جائیں گے تو قوی امکان ہے کہ جس وائرس سے آپ اب تک بچے ہوئے تھے، اب آپ اسے خود آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی ایک ویڈیو میں عوام سے یہی التجا کر رہے تھے۔ برطانیہ تک میں لوگوں سے یہی درخواست کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے بھی پاکستان میں ہسپتالوں کی جو حالت ہے وہ دیکھ کر تو کرونا کو بھی رونا آ جائے، آپ تو پھر انسان ہیں۔ حکومت کے ارادے بھی کچھ خاص نہیں لگ رہے۔ جو اقدامات ہفتوں پہلے کیے جانے چاہیے تھے وہ چار دن پہلے کیے گئے۔ عوام بھی ہماری شاہی مزاج رکھتی ہے۔ انہیں جس کام سے روکا جائے، یہ وہی کرتے ہیں۔ حکومت نے تعلیمی اداروں کے بعد شادی ہال بند کیے تو لوگوں نے گھروں میں باراتیں اور ولیمے کرنے شروع کر دیے۔ چلو دلہا دلہن کے گھر والوں کا تو شادی میں ہونا ضروری ہے، دور دراز کے رشتے داروں کا پابندیوں کے باوجود شادی میں شرکت کرنا ایک الگ ہی قسم کا ایڈونچر ہے۔ ایسے ایڈونچرز سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
ہماری حکومت نے جو کام کرنے تھے کر لیے، اب آپ کی باری ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی نقل و حرکت کو محدود کریں۔ وٹس ایپ پیغامات کو نظر انداز کریں اور صرف عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کی جانے والی ہدایات پر عمل کریں۔ جان ہے تو جہان ہے۔ ابھی اپنی جان بچائیں، جہان کا سلسلہ تو آپ سے پہلے بھی چلتا رہا ہے اور آپ کے بعد بھی یوں ہی چلتا رہے گا۔ اپنی زندگی بچائیں اور گھر بیٹھ کر کرونا کے اس دنیا سے رخصت ہونے کی دعا کریں۔
اپنے گھریلو ملازمین کو ان کی پوری تنخواہ دے کر کچھ روز کی چھٹی دے دیں۔ اس وقت ہر جان اہم ہے۔ کرونا سے جس قدر آپ کی جان کو خطرہ ہے، اتنا ہی ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ چند ہزار روپوں سے آپ کے بینک بیلنس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن کسی غریب کے کچھ دن اچھے گزر جائیں گے۔
باقی اللہ سب کا مالک ہے۔ ہماری پہلے بھی امیدیں اسی سے تھیں، ابھی بھی اسی سے ہیں۔