وریتہ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بھننا ہے۔ وریتہ پشتو میں بھنے ہوئے گوشت یا بار بی کیو گوشت کو کہتے ہیں۔
یہ عموماً چھوٹے جانوروں مثلاً دنبے، بھیڑ، بکرے اور بکری کے گوشت سے تیار ہوتا ہے لیکن ان میں سے سب سے مزےدار اور خوش ذائقہ وریتہ دنبے کے گوشت کا ہوتا ہے۔
دنبے کے وہ اعضا جو زمین کے ساتھ نہیں لگتے، جیسے کہ ریڑھ کی ہڈی سے بہترین وریتہ بنتا ہے، جسے لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔
وریتہ کا شوق بہت کم لوگوں کو ہوتا ہےاور اسے بنانے کا فن اور مہارت صرف شینواری قوم کو حاصل ہے۔
بعض مورخین کہتے ہیں کہ وریتہ قدیم خوراکوں میں سے ہے کیونکہ اسے بنانے کے لیے نمک کے علاوہ کسی مصالحے یا دیگر اشیا کی ضرورت نہیں۔
پہلے گوشت کو چھوٹے ٹکڑوں میں گول کاٹ کر سیخ میں پروتے ہیں اور پھر حسب ذائقہ نمک چھڑکا جاتا ہے۔ کوئلے کو سلگا کر اس پر سیخ رکھی جاتی ہے اور گوشت کو صحیح سے بھونا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پورے پاکستان میں لنڈی کوتل کی شینواری قوم کا وریتہ مشہور ہے۔ لنڈی کوتل میں پہاڑ کے دامن میں واقع بہت پرانی دادین کی دکان کے وریتہ کی تو کیا بات ہے۔
اکبر خان شینواری کہتے ہیں کہ وہ 70 سال سے وریتہ کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ اپنے داد اکے ساتھ پہلی بار وریتہ کھانے لنڈی کوتل بازارآئے تھے ،پھر اپنے والد کے ساتھ ہر ہفتے کھانے لگے۔
آج کل اکبراپنے پوتے کو ساتھ لاتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس عمر میں بھی اکثر نوجوانوں کے مقابلے میں جنسی اور جسمانی طور پر طاقت ور ہیں ، جس کی وجہ وہ وریتہ بتاتے ہیں۔
بغداد شاہ بھی اکبر کی طرح وریتہ کھانے کے شوقین ہے۔ انہوں نے دو شادیاں کی ہیں اور وہ ہفتے میں کم از کم دو باروریتہ کھانے آتے ہیں۔
بغداد شاہ کے دوست طاہر خان کے نزدیک جنسی خواہشات کے لیے نوجوان مضر صحت ادویات اور گولیاں کھاتے ہیں ،لیکن وریتہ ان سب سے بہتر اور آسان حل ہے۔
وریتہ کو خاص طور پرمردوں کی خوراک سمجھا جاتا ہے۔ لنڈی کوتل میں خواتین بازار نہیں آتیں لیکن دیگر شہروں میں بھی اسے زیادہ تر مرد ہی کھاتے ہیں۔
اکبر خان شینواری کے مطابق عموماً خواتین کوایسی طاقت کی ضرورت نہیں پڑتی اس لیے اگر وہ وریتہ نہ بھی کھائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔