لوریتا ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جن سے میری اٹلی آنے کے بعد سب سے پہلے ملاقات اورپھر دوستی ہوئی۔ بہت ملنسار اور مددگار لڑکی ہے۔
پہلے دن ہی پروفیسر پلمبو نے ان سے کہا کہ گھرڈھونڈنے میں وہ میری مدد کریں۔ انھوں نے بخوشی ہامی بھرلی اور بس پھر پورے دن میرے ساتھ بیٹھ کر وہ مختلف ویب سائٹس بتاتی رہیں جہاں سے میں اپنے لیے کوئی رہائش بک کروا سکتی ہوں۔
لوریتا پی ایچ ڈی کے فائنل ایئر کی طالبہ ہیں اور اپریل کے مہینے میں انہیں اپنے تحقیقی کام کو دیگرجامعات کے پروفیسروں کے سامنے پیش کرکے اس کا دفاع کرنا تھا۔ وہ کچھ مطمئن تھیں مگر ساتھ ہی ساتھ تھوڑی گھبرائی ہوئی بھی تھیں۔ ظاہر ہے سالوں کی تحقیق کو چند لمحوں میں سمو کر پیش کرنا تھا جس کے بعد ان کے تعلیمی کیریئر کی سب سے اہم ڈگری کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا اور وہ بھی محض تین ماہ بعد، تو بیک وقت خوشی اور پریشانی یقینی تھی۔
اس ملاقات کے اگلے ماہ ہی اٹلی کے شمالی علاقوں میں کروناوا ئرس کے کچھ کیس سامنے آئے اور رفتہ رفتہ اس نے اٹلی کے دیگر شہروں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ جامعات کو سب سے پہلے بند کیا گیا اور نو مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا۔
مگر جب 23 مارچ کو میں نے پروفیسر پلمبو کی ای میل دیکھی تو تھوڑی دیراپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ای میل کا موضوع تھا: ’دعوت نامہ برائے پی ایچ ڈی تھیسس پریزنٹیشن۔‘
گویا ایک ایسے وقت میں جب ملک ایمرجنسی کی صورت حال سے گزر رہا ہے، پورا اٹلی ٹھپ پڑا ہے مگر تھیسس کا دفاع موخر نہیں ہو رہا؟ پروفیسر پلمبوکی ای میل میں موجودہ اور سابقہ تمام طالب علموں کو تین اپریل صبح نو بجے ’زوم‘ نامی سوفٹ ویئر کے ذریعے آن لائن آنے کا کہا گیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ ای میل میں میٹنگ کا لنک بھی موجود تھااور پی ایچ ڈی کی تحقیق کا دفاع کرنے والوں میں لوریتا کے علاوہ تین اور لڑکیوں کا نام بھی شامل تھا۔ میرے لیے یقینا یہ حیران کن تھا، سوچنے لگی اتنا اہم معاملہ آن لائن کیسے نمٹایا جا سکتا ہے؟
تین اپریل صبح نو بجے دیے گئے لنک پر آن لائن ہوئی تو سبھی پہلے سے موجود تھے۔ شعبے کے تمام پروفیسر، پی ایچ ڈی کے تمام طالب علم، چاروں امیدوار، ان کے سپروائزر اور اٹلی کی دیگر جامعات کے تین پروفیسربھی آن لائن تھے جو جیوری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان میں دو حضرات اور ایک خاتون پروفیسر شامل تھیں۔
پروفیسر پلمبو نے مہمان پروفیسروں کا تعارف کروانے کے بعد ان سے سیشن کا آغاز کرنے کی درخواست کی۔ مہمان پروفیسر نے پہلی امیدوار سے 30 منٹ کے اندر اندر اپنا تحقیقی کام پیش کرنے کے لیے کہا۔ اتفاق سے یہ امیدوار لوریتا تھیں۔
ہم چھوٹی سکرینوں پر تمام پروفیسر اور امیدواروں کو دیکھ سکتے تھے اور لوریتا کی پریزنٹیشن بڑی سکرین پر موجود تھی۔ انھوں نے 30 منٹ لیے، جس کے بعد پروفیسروں نے ان سے سوالات کیے۔
تسلی بخش جوابات کے بعد دوسری، تیسری اور پھر چوتھی امیدوار کی باری آئی۔ اتفاق سے تمام امیدوار لڑکیاں ہی تھیں۔ تقریباً تین گھنٹے بعد تینوں مہمان پروفیسروں نے الگ کمرے میں جانے کی درخوست کی اور انہیں ایک الگ ’ورچوئل کمرا‘ فراہم کر دیا گیا۔
اب یہاں ہم سب بیٹھے ان کا انتظار کر رہے ہیں اورَ 15 منٹ بعد یہ تینوں صاحبان پھر سے آن موجود ہوئے۔ جیوری کے سربراہ نے ٹیم کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے تما م امیدواران کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عنایت کرنے کی توثیق کر دی۔ ایک طالبہ کو ’مناسب،‘ دو کو ’اچھی‘ اور ایک کو ’بہترین‘ تحقیق کے ٹائٹل سے نوازا گیا۔
ہر طرف سے مبارک مبارک کا شور شروع ہو گیا۔ مہمان پروفیسروں نے رخصت چاہی۔ لڑکیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر پہلے والا سنجیدہ پلیٹ فارم اب قہقہوں سے گونجنے لگا۔ نو بجے شروع ہونے والے اس سیشن کا اختتام دو بجے ہوا اور چھ ماہ قبل طے کیے گئے اس سیشن کو ملک کی ناگہانی صورت حال کے باوجود نہیں ٹالا گیا۔
یہاں مجھے اپنے ایک کولیگ یاد آگئے جو پاکستان ہی کی ایک جامعہ سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور عرصہ قبل اپنا تھیسس جمع کروا چکے تھے۔ میرے یہ پوچھنے پر کہ ’پی ایچ ڈی کی ڈگری کب مل رہی ہے؟‘
ان کا جواب تھا، ’مجھ سے اب کوئی یہ پوچھتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے خودکشی کر لوں!‘
مجھے اپنی جامعہ کی وہ ہم جماعت بھی یاد آ رہی ہے جس نے چند دن قبل ہی فیس بک پر سٹیٹس ڈالا تھا کہ پی ایچ ڈی کا تھیسس جمع کروانے کے باوجود معاملہ آگے نہ بڑھ پانے پر دل برداشتہ ہو کر وہ اپنا تھیسس واپس لے رہی ہیں۔
اپنی ایک قابل ساتھی کے بارے میں سوچتی ہوں جو گذشتہ ایک سال سے اپنا مکمل تھیسس جمع کروا چکی ہیں اور اب محو دعا ہیں کہ خدارا کہیں معاملہ آگے بڑھے، مگرغیر پیشہ ورانہ نظام ان کی اس خواہش کو پورا نہیں ہونے دے رہا۔
ان کی سالگرہ پر جب میں نے انہیں دعا دی کہ اگلی سالگرہ تک آپ ڈاکٹر بن چکی ہوں گی تو انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، ’یہ معاملہ رہنے دیں، کوئی اور بات کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے اپنے ایم فل کا وہ پانچ سالہ اذیت ناک دور بھی یاد آ رہا ہے۔ یہ محض چند واقعات ہیں، ہزاروں طالب علم روز اسی کشمکش سے گزرتے ہیں کہ کہیں کوئی رکی ہوئی میٹنگ ہو جائے، کوئی فیصلہ لے لیا جائے، کسی کاغذ پر دستخط ہو جائیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ تحقیق کہیں پیچھے ہی رہ جاتی ہے اور ان کارروائیوں کو بھگتانا زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔
اکثر سنتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اچھی ریسرچ نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے ہمارے طلبہ ذہین نہیں ہیں، بلکہ اس لیے کہ نظام ان کی اس خواہش کی تکمیل کی مخالف سمت میں چل رہا ہے، وہ انہیں سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ان کے راستوں میں روڑے اٹکانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالب علموں کے لیے تحقیق مشکل نہیں لیکن نظام سے جنگ انھیں تھکا دیتی ہے اور ان کی تمام تر توانائی تحقیق کے بجائے معاملات نمٹانے میں ہی صرف ہو جاتی ہے۔
قوموں کی ترجیحات ہی ان کی ترقی کا تعین کرتی ہیں۔ لوریتا اگر پاکستان میں ہوتیں تو انہیں پتہ چلتا کہ ’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔‘