کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صوبائی حکومتوں کی جانب سے اپنے اپنے طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا ہے، تاکہ شہری گھروں تک محدود رہتے ہوئے خود کو اس موذی مرض سے محفوظ رکھ سکیں۔
ملک کے کچھ شہروں میں تو لاک ڈاؤن پر عملدرآمد ہو رہا ہے لیکن کچھ میں دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اب حکومت کی ہدایات پر کان نہیں دھر رہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سلسلے میں ملک کے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن کی صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔
کراچی
انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے امر گرڑو کے مطابق سندھ میں 23 مارچ سے نافذ ہونے والا لاک ڈاؤن تو جاری ہے، لیکن شہر میں تفریحی مقامات، تجارتی مراکز اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باجود صوبائی دارالحکومت کراچی میں لاک ڈاؤن کے دوران بھی لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نظر آنے لگی ہے۔
دوسری جانب پولیس کی جانب سے شہر قائد میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے شہریوں کی گرفتاریوں اور مقدمات کا اندراج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سندھ پولیس کے ترجمان کے مطابق صوبے میں لاک ڈاؤن کے 16ویں دن یعنی منگل کی شام تک پولیس نے 248 شہریوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا۔
پولیس ترجمان کے مطابق 23 مارچ سے اب تک کراچی میں نافذ دفعہ 144 کی خلاف وزری کرنے پر 604 مقدمات درج کرکے ایک ہزار 712 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی پولیس نے لاک ڈاؤن کا خیال نہ کرنے اور بغیر کسی مقصد کے خواتین اور بچوں کے ساتھ باہر نکلنے والے شہریوں کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کو سخت کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کی 20 بڑی اور اہم شاہراہوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کے بعد پاکستان کی وال سٹریٹ کے طور پر جانی جانے والی شہر کی اہم سڑک آئی آئی چندریگر روڈ، ایم اے جناح روڈ، شاہراہ فیصل، کلفٹن روڈ، ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ، شاہراہ قائدین، راشد منہاس روڈ، گزری روڈ، خیابان اتحاد اور کورنگی روڈ کو جگہ جگہ سے بند کردیا گیا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سےواضح کیا گیا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران صرف کریانے اور میڈیکل سٹورز کو کھولنے کی اجازت ہوگی لیکن اب کراچی کے مختلف علاقوں میں لاک ڈاؤن کی صورت حال میں نرمی آگئی ہے اور اب پولیس بھی کریانے اور میڈیکل سٹورز کے علاوہ کھلی ہوئی دکانوں کو بند کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو رمیشہ علی کے مطابق کراچی کے علاقے بفرزون میں واقع ایک فوٹو سٹوڈیو کے مالک کا کہنا تھا: 'ہم لاک ڈاؤن سے اکتا چکے ہیں۔ دکان کھولنے سے ایک تو گھر سے باہر نکلنے کا موقع مل جاتا ہے اور تھوڑی کمائی بھی ہو جاتی ہے۔ اگر میری دکان کھولنا غیر قانونی ہوتا تو پولیس بند کروا دیتی لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔'
کوئٹہ
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ہزار خان بلوچ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ گھروں سے باہر نکل رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے گھروں میں رہنے کے مطالبے پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکام نے صورت حال کے پیش نظر شہر میں لاک ڈاؤن میں 21 اپریل تک کی توسیع کرتے ہوئے مزید سختی کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت شہر میں صبح چھ بجے سے سہ پہر تین بجے تک تمام دکانیں بند رہیں گی جبکہ شہر کی اہم شاہراہوں پر پولیس نے ناکے لگا کر انہیں بند رکھا ہے اور گھروں سے باہر نکلنے والے شہریوں سے پوچھ گچھ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پولیس حکام کے مطابق گھر سے باہر نکلنے کی اجازت صرف ان لوگوں کو ہوگی جن کو حکام نے مستثنیٰ قرار دیا ہے جبکہ اس کے علاوہ کسی کو سفر کرنےکی اجازت نہیں ہے۔
لاہور
کرونا وائرس کے پیش نظر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جزوی لاک ڈاؤن کو 16 روز ہوچکے ہیں، مگر اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو شاید اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو فاطمہ علی کے مطابق حکومت پنجاب نے دکانوں اور جنرل سٹورز وغیرہ کو شام 5 بجے بند کر دینے کا حکم دیا تھا جس کے تحت شہر کے مرکزی علاقوں کی بیشتر دکانیں تو بند ہو جاتی ہیں مگر اب بھی گلی محلوں یا ہاؤسنگ سوسائٹیز اور لاہور کے پوش علاقوں میں دکانوں کے پچھلے دروازوں سے خرید و فروخت کا عمل جاری ہے۔
دوسری جانب عوام کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے لاہور پولیس نے شہر میں ناکوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رائے بابر سعید کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق گذشتہ 16 دنوں میں شہر میں دفعہ 144 کی پابندی یقینی بنانے کے لیے پولیس نے اب تک ایک لاکھ 23 ہزار115 شہریوں کو روک کر باہر آنے کی وجہ پوچھی جبکہ ایک لاکھ 14 ہزار 296 شہریوں کو وارننگ دے کر واپس گھر بھیجا گیا۔
ناکوں پر تعینات پولیس فورس کا عملہ دفعہ 144 کی پابندی پر عملدرآمد کو سختی سے یقینی بنانے کی کوشش میں ہے اور اسی کے پیش نظر شہر کے مختلف مقامات پر گداگروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ دوسری جانب گاڑیوں سے کالے شیشوں کے سٹکرز بھی اتارے جارہے ہیں۔
پشاور
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کے مطابق خیبر پختونخوا میں لاک ڈاؤن کو دو ہفتے سے زائد ہونے کو ہیں لیکن جس طرح پہلے دنوں میں عوام اسے سنجیدہ لے رہے تھے، صورت حال اب ویسی نظر نہیں آرہی۔
اس بات کا اندازہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختلف علاقوں میں چھاپوں اور گرفتاریوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
ایک وجہ یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومت کی طرف سے ابھی تک ضرورت مند افراد میں راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا، جس کے باعث لوگ اب گھروں سے باہر جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق ایک چھاپے کے دوران 22 افراد کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کیونکہ انہوں نے پابندی کے باوجود دکانیں کھول رکھی تھیں۔
اسی طرح انتظامیہ کے مطابق چارسدہ روڈ پر دو بینکوں کو بھی سیل کر دیا گیا کیونکہ وہاں پر لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔
صوبائی حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن میں 14 اپریل تک توسیع کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت تمام مارکیٹوں اور بڑے پلازوں کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، تاہم تندور، فارمیسی، سبزی اور کریانے کے دکانیں کھلی رہیں گی۔
اسی طرح مختلف اضلاع میں دفعہ 144 بھی نافذ ہے اور پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔
اسلام آباد
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار عبداللہ جان کے مطابق ملک کے دیگر حصوں کی طرح سوشل ڈسٹنسنگ یعنی سماجی دوری کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے، لیکن اس لاک ڈاؤن کی خصوصیت یہ ہے کہ دارالحکومت کے رہائشیوں کی بڑی تعداد رضاکارانہ طور پر گذشتہ تقریباً چار ہفتوں سے گھروں تک محدود ہے۔
یاد رہے کہ صوبائی حکومتوں کے برعکس وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں مکمل لاک ڈاؤن کے اطلاق سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا، تاہم تعلیمی ادارے ملک کے باقی حصوں کی طرح بند ہیں۔
اسلام آباد کی سڑکیں، بڑے بڑے شاپنگ مالز اور مراکز سنسان پڑے ہیں جبکہ اکثر ریستوران بھی بند پڑے ہیں۔
تاہم شہر کے مضافاتی علاقوں اور راولپنڈی میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا اور اکثر مقامات پر لوگ بڑی تعداد میں موجود نظر آتے ہیں جبکہ کئی ایک مارکیٹیں بھی کھلی ہوئی ہیں۔