بچپن میں نونہال میگزین میں قسط وار ناول ’پیاری سی پہاڑی لڑکی‘ پڑھا تھا۔ اس کی مصنف ’یوہانا سپائری‘ ہیں جبکہ ترجمہ جناب مسعود احمد برکاتی نے کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔
کہانی کا اہم کردارایک چھوٹی بچی ’ہائیڈی‘ جب اپنے دادا کے گھر جاتی ہے تو اس کے کمرے کی کھڑکی سے قدرت کے حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور وہ سبز گھاس کے بستر پر سو کراس کا دیدار کرتی ہے۔ برکاتی صاحب نے اس کا بیان بھی اس اندازسے کیا ہے کہ دل چاہتا ہے انسان ناول کا حصہ بن کر کھڑکی کے سامنے بیٹھ جائے۔ بچپن میں پڑھا تھا اس لیے اس کا ہر منظر ذہن نشین ہے۔
ایسے نظارے آنکھوں کے ساتھ روح کی تسکین کا باعث بھی ہوتے ہیں مگر کراچی جیسے شہر میں بھیڑ، آلودگی، گاڑیوں کے شوراور لوگوں کے ہجوم میں اس ماحول کا کبھی تصور نہیں کیا، ہاں البتہ خواہش ہمیشہ کی۔ ہیدی کے دادا کے گھر جا کر اسی کھڑکی کے ساتھ بیٹھنے کی۔ کراچی میں مصروف رہنے کی شکایت ہر ایک کو ہے۔ آپ کراچی کے کروڑوں باسیوں میں سے کسی سے بات کر لیں، اختتام اس کی مصروفیت کا رونا روتے ہوئے ہو گا اور پھرآپ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے پرمجبور ہوں گے۔
ایسے میں کراچی سے تقریباً ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر دور ’کیتی‘ میں ایک روز صبح اٹھنے پر وہی ’ہائیڈی‘ اور اس کی کھڑکی یاد آ جائے اور پھر اس پر حکم ہو کہ اب یہاں سے کہیں نہیں جانا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے بچپن کی کوئی خواہش پوری ہو رہی ہے۔ کیونکہ آج میری کھڑکی کے آگے کا نظارہ بھی خوبصورت ہے۔ پہاڑاور اس پر کہیں کہیں برف، بادل، بارش، سر سبز درخت اوراس پرماحول میں چاشنی بھرتی پرندوں کی چہچہاہٹ۔
یہ ہے کیتی جو 50 ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ ایک پہاڑی علاقہ جو اٹلی کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور دارالحکومت روم سے دو گھنٹے کی مسافت پرہے۔ تاریخ کھنگالیں تو یہاں کئی صدیوں تک آباد مختلف قومیں ملیں گی۔ پرانا نام ’ٹیئیٹ‘ تھا۔ رومی 305 قبل مسیح میں یہاں آباد ہوئے۔ پھر حملہ ہوا اوریوں اجڑنے سنورنے کی داستان چلتی رہی۔ مگر اس وقت کیتی حسین ہے۔ اس کے دو حصے ہیں، قدیم اور جدید۔ راچی سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے قدرے مختلف۔ چھوٹا مگر خوبصورت اور زندگی کی تمام تر ضروریات سے پُر۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صبح اٹھے، قدرت سے رشتہ جوڑا۔ بالکونی میں کھڑے ہو کر آسمان کو دیکھا جو یہاں حد نگاہ تک میسر ہے۔ پرندوں کے گیت سنے جو یہ بھرپور انداز میں گنگناتے ہیں۔ جب یہ کورس میں ہر طرح کا سنگیت فضا میں گھولتے ہیں تو کانوں میں ہینڈفری ڈالنے کا جی نہیں چاہتا۔ ایسالگتا ہے ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں اور اس میں کسی قسم کا خلل انہیں پسند نہیں۔
شفق کے جتنے رنگ یہاں آسمان پر بکھرتے ہیں، کہیں اور نہیں دیکھے، پہاڑوں کے اوپر کوئی اوررنگ، مکانوں پر کسی اور طرز کا اور جاتے جاتے نجانے کتنے روپ۔ یہاں کی بارش بھی عجیب ہے، اپنے آنے کی اطلاع نہیں دیتی، نہ آسمان کا رنگ تبدیل ہوتا ہے، نہ گھنے بادل، بے وقت ہی شروع ہو جاتی ہے اور برستے برستے یک دم رک بھی جاتی ہے۔ لوگ خوشی سے چیختے چلاتے نہیں۔ اطمینان سے اپنی چھتری کھول لیتے ہیں۔ برسات کو یہ لوگ پسند نہیں کرتے۔ سورج کی کرنوں سے ان کی خاص دوستی ہے۔ طلوع آفتاب کے ساتھ اٹھتے ہیں اورغروب کا وقت ہوتے ہی تھک جاتے ہیں۔
بالکونی سے لوگوں کو دیکھنے کا جی چاہا تو نظریں نیچی کر لیں، کوئی نہ کوئی دِکھ جاتا ہے۔ کوئی بوڑھا شخص اپنے پالتو جانور کو واک کے لیے لے جا رہا ہو گا۔ جانوروں سے ویسے بھی انہیں بہت محبت ہے۔ سپر سٹور میں جائیں۔ جانوروں کی غذا کا باقاعدہ سیکشن بنا ملے گا، جہاں ایک نہیں کئی برانڈ موجود ہوتے ہیں۔
کبھی کوئی نوجوان گھر کے باہر ٹہلتا نظرآ جاتا ہے۔ ان لوگوں کی ورزش کی عادت اس قدر پختہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں بھی گھر کے باہر دروازے تک ہی سہی مگر اپنی سی واک کرتے ضرور ہیں۔ یا تو پھر ہاتھ میں تھیلا لٹکائے کوئی خاتون جا رہی ہوتی ہیں، پتہ چل جاتا ہے کہ سوداسلف لینے جا رہی ہیں۔ یہاں سپر سٹورصبح آٹھ جے کھلتے ہیں اور شام آٹھ جے بند ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ صبح پہلے پہنچ جائے۔ یوں اس بالکونی کے ذریعے زمین اور آسمان دونوں سے ہی رشتہ برقرا ررہتا ہے۔
اٹلی میں لاک ڈاؤن کو ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ خود سے ملاقات جو اس وقت میسر ہے، پہلے نہ تھی۔ اپنی صحبت بھی بھلی لگ رہی ہے۔ مجھے مسعود احمد برکاتی کی طرح منظر کشی نہیں آتی، یوہانا سپائری سا تخیل بھی نہیں۔ مگر اس تاریخی جگہ پر میں اورکھڑکی کا یہ حسین منظر، ’خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو!