کسی بھی انتظامی سائنس کے ماہر سے بات کریں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ وہی تنظیمیں اچھی کارکردگی دکھاتی ہیں جس میں اوپر سے نیچے تک کم سے کم پرتیں ہوں۔ کسی بھی تنظیم میں جتنی زیادہ پرتیں ہوں گی اتنی ہی اس کی فیصلہ سازی کم اور آپس میں لڑائی زیادہ ہو گی۔
یہ اصول صرف کاروباری تنظیموں کے لیے نہیں بلکہ اس کا اطلاق حکومتی ساخت اور تنظیم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ عام طور پر منتخب حکومتیں مرکزی، صوبائی اور بلدیاتی ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے ادارے ہیں جو ان تین حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ مثلاً ضلعی انتظامیہ یا پیمرا، اوگرا اور نیب وغیرہ۔
وہ ملک جن میں حکومتیں بااثر ہیں اور عوام کی فلاح میں کامیاب ہیں وہاں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ حکومتی ادارے کم سے کم ہوں اس لیے کہ جتنے یہ زیادہ ہوں گے اتنا ہی کام دیر سے ہوگا اور اس پر خرچ بھی زیادہ آئے گا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں حکومت اور اس کے اداروں کی کارکردگی بہت خراب ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک اہم وجہ بری تنظیم ہے۔ ایک ہی کام کو کرنے کے لیے کئی ادارے ہیں۔ مثال کے طور پر سفید پوش کرپشن کو پکڑنے کے لیے ایف آئی اے کے علاوہ نیب بنایا گیا مگر اس کے علاوہ اینٹی کرپشن بھی کام کر رہا ہے۔
پیمرا بھی موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وزارت اطلاعات بھی ہے اور پی ٹی اے بھی کام کر رہا ہے۔ وزارت پورٹس اور شپنگ تو ہے ہی لیکن ساتھ میں سی اے اے بھی چل رہا ہے اور اس کے علاوہ ائیرپورٹ سکیورٹی فورس بھی ہے جو پولیس کے علاوہ ہے۔
ہر حکومت ان تنظیمی پرتوں میں مزید اضافہ کرتی ہے جیسے پچھلے دنوں ایک قومی مشاورتی کمیٹی بنائی جس میں آرمی چیف بھی تھے اور اب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر بھی بن گیاہے۔ پلاننگ کی وزارت تو تھی ہی اور اب سی پی ای سی اتھارٹی بھی بن گئی ہے۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ اگر آپ حکومت کے رولز آف بزنس پڑھیں تو آپ سر پکڑ لیں گے۔ یعنی ہمیں آزادی ملے 72 سال سے اوپر ہوگئے مگر ابھی تک وہ ادارہ قائم ہے جو بھارت سے آئے پناہ گزینوں کی زمینوں کے معاملات سلجھا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے اداروں کی ضرورت کیا ہے؟ جواب بہت آسان ہے۔ اس ملک میں پرعزم لوگ جنہیں عہدوں کا حرص ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان لوگوں کی حرص کو پورا کرنے کے لیے نت نئے ادارے بنانے پڑتے ہیں تاکہ ان کی کھپت ہو سکے۔ یہ تمام ادارے ملکی بجٹ پر اتنا زیادہ بوجھ ہیں کہ ان کے بوجھ تلے یہ ملک بستر مرگ پر پہنچا ہوا ہے۔
میں آپ کو تسلسل سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ نئے سرے سے تنظیم سازی کے بغیر اس ملک کے مسائل ختم نہیں ہو سکتے۔ مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ کئی طرف سے یہ مطالبات بھی آ رہے ہیں کہ نئے صوبے بننے چاہییں۔
مرکز اور صوبوں کے درمیان ٹیکسوں کی تقسیم بھی ایک اہم معاملہ ہے مگر اس کے ساتھ صوبوں کو ٹیکس وصول کرنے کا اختیار بھی اہم ہے۔ موجودہ حکومت ویسے بھی ناکام ہو چکی ہے۔ چینی اور آٹے پر جو رپورٹ آئی ہے وہ حکومت کی نااہلی اور مافیاز کے مفاد میں کام کرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔
یہی نہیں بلکہ جہانگیر ترین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کم ہوئی اور دھرنا کسی اور چکر میں دیا گیا۔ ان کا یہ بیان ہماری اس بات کی تصدیق ہے کہ ہمارا دھرنے سے اختلاف ٹھیک تھا اور ہمارا یہ مطالبہ بھی صحیح ہے کہ اس دھرنے کی تحقیق ہونی چاہیے۔
پی پی پی اور مسلم لیگ ن بھی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر کوئی قابل ٹیم ہو بھی تو موجودہ جمہوریہ کی انتظامی ساخت اتنی خراب ہے کہ وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ غرض یہ کہ اس بات کو مزید نہیں ٹالا جاسکتا کہ ایک نئی جمہوریہ قائم کی جائے اور اس کے لیے سیاسی مذاکرات جلد از جلد شروع کیے جائیں۔
آخر میں یہ تاکید کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انڈیپنڈنٹ اردو میں میرا کالم ان چند تحریروں میں سے تھا جنہوں نے سب سے پہلے یہ اطلاع آپ تک پہنچائی کہ ملیریا کی ایک دوا کونین کرونا کے علاج میں استعمال کرنے پر تحقیق ہو رہی ہے، جس کے حوصلہ افزا نتائج آئے ہیں۔ اس کے بعد چند دنوں میں دنیا بھر میں اس دوا کی ذخیرہ اندازی شروع ہو گئی۔
میری آپ سے استدعا ہے کہ ابھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ یہ ایک بااثر دوا ہے لہٰذا کرونا وائرس کے متاثرین صرف ڈاکٹر کے مشورے پر ہی اسے احتیاط سے استعمال کریں۔ اس لیے کہ بےدریغ استعمال سے چند اموات بھی ہوئی ہیں۔ اس وبا میں احتیاط علاج سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔