کرونا (کورونا) وائرس کی وبا پھیلنے سے سٹرابری کے کاشت کار بھی شدید مشکلات سے دوچار ہوگئے ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سٹرابری کی تیار فصل کو منڈیوں تک پہنچانا مشکل ہوگیا ہے۔
سٹرابری کی فصل خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ اور مردان میں کاشت کی جاتی ہے۔ خاص طور پر چارسدہ کے علاقہ سرکی میں سٹرابری سب سے بڑی نقد آور فصل ہے اور 200 ایکڑ تک کے علاقے میں صرف سٹرابری ہی کاشت کی جاتی ہے۔
سٹرابری کا تخم مقامی سطح پر نہیں پایا جاتا بلکہ اسے سرد علاقوں سوات اور دیر سے لایا جاتا ہے جو کہ فروری کے آخری مہینے میں تیار ہوتا ہے اور مئی کے مہینے تک اس سے پھل حاصل کیا جاتا ہے، جنہیں پھر کاشت کار مقامی منڈیوں میں لے جاتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اس سے پیسے حاصل کرتے ہیں۔
سٹرابری کی فصل کے لیے ایک ایکڑ زمین پر ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک خرچہ آتا ہے لیکن اس سال کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں لاک ڈاؤن سے مارکیٹیں اور بازار بند ہونے کی وجہ سے سٹرابری کے کاشت کاروں کی مارکیٹ تک رسائی نہیں ہو رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکی سے تعلق رکھنے والے سٹرابری کے کاشت کار دواجان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ کرونا وائرس نے زمینداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ 'ہم زمینداروں نے سٹرابری کی فصل اگائی ہے اور منڈیاں بند ہوگئی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اگر سٹرابری کی منڈیاں نہیں کھول سکتی توکوئی اور بندوبست کرے کیونکہ اس پر ہم نے بہت پیسہ لگایا ہے اور منڈیاں بند ہونے سے اب ہمیں وہ پیسے نہیں مل رہے اور فصل کو منڈی تک پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔'
دواجان نے کہا: 'چلو ٹھیک ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک میں جو لاک ڈاؤن لگایا گیا ہے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور ہم باہر نہیں نکلتے لیکن سٹرابری کا بھی کچھ بندوبست تو کرنا چاہیے۔ ہم ان کو کھیت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ پھر یہ گل سڑ جاتی ہیں اور نہ انہیں گھر میں رکھ سکتے ہیں۔'
'حکومت کو چاہیے کہ اس کے لیے کوئی نظام بنا دیں، منڈیاں لگا دیں۔ اسٹرابری کو ہم گھر میں تو نہیں رکھ سکتے، ہمارا لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر حکومت لاک ڈاؤن کی وجہ سے ریلیف دینا چاہتی ہے تو ہمیں ریلیف کی جگہ سٹرابری کی منڈیاں کھول دیں، یہ ہم زمینداروں کے لیے ریلیف ہوگا۔'
سٹرابری خریدنے کے لیے آئے ہوئے حضرت علی نے بتایا کہ وہ پلوسئی بازار میں ہتھ ریڑھی پر سٹرابری فروخت کرتے ہیں۔ 'پہلے ہم سرکی بازار میں واقع منڈی سے سٹرابری لے جاتے تھے، اب چونکہ پولیس والوں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے سٹرابری منڈی بند کی ہوئی ہے تو اب باغ پر جانا پڑتا ہے، اس سے وقت بھی ضائع ہوجاتا ہے اور خرچہ بھی بڑھ جاتا ہے جبکہ منڈی میں ہمیں مختلف قیمتوں پر سٹرابری ملتی تھی۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'پہلے میں 150کلو تک سٹرابری ریڑھی پر فروخت تھا، اب 50کلو بھی نہیں فروخت نہیں ہورہی کیونکہ لوگ گھروں سے نہیں نکل رہے اور مارکیٹیں بھی بند ہیں۔'
سٹرابری کے ایک کاشت کار کاشف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ 'سٹرابری کی فصل اب پوری طرح تیار ہے لیکن کرونا وائرس آگیا۔ اب نہ تو ہم سٹرابری کو کھیت میں رکھ سکتے اور نہ ہی سٹور کرسکتے ہیں۔ منڈیاں بھی بند پڑی ہیں اور اوپر سے بارش بھی ہو رہی ہے، جس سے ساری فصل خراب ہو رہی ہے۔ اس پر ہمارا بہت خرچہ آیا ہے، اب جب اسے فروخت کرنے کا وقت آیا ہے تو آگے منڈی تک رسائی نہیں مل رہی، ساری سڑکیں حکومت نے بند کی ہوئی ہیں۔ مہربانی کرکے ایسا کیا جائے کہ ہمیں منڈی تک رسائی مل جائے۔'
کاشف نے مزید بتایا کہ 'سٹرابری کی فصل ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ جب منڈی کھلی ہوتی تھی تو سٹرابری فی کلو سو روپے سے لے کر 140 روپے تک فروخت ہوتی تھی لیکن اب 60 روپے تک فی کلو کاشت کار سے لی جاتی ہے تو اس سے تو خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا۔'
کاشف کے مطابق سٹرابری کے کاشت کاروں کا مطالبہ ہے کہ ان کو منڈی تک رسائی دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا: 'پہلے سٹرابری پڑوس ملک میں جاتی تھی اس کی وجہ سے بھی ریٹ کافی حد تک بہتر ہوتا تھا، لیکن اب تو افغانستان بارڈر بھی بند ہے، بلکہ افغانستان بارڈر کو تو چھوڑیں اپنے ضلع چارسدہ کی منڈی تک بھی رسائی نہیں مل رہی ہے۔