میرا گھر بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ حضرت ماہانہ محفل پاک کے لیے میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے۔ حضرت کا ٹھک ٹھک والا، موٹے دانوں کی تسبیح والا وظیفہ، پر سوز لحن میں بیان، بیچ میں اقبال کے بر محل اشعار اور آخر میں رلا دینے والی دعا۔
ہم سب مریدوں کے ایمان کو مرشد پاک کی یہ ماہانہ محفل جلا بخشتی تھی۔ خیر سے میرا سارے کا سارا حلقہ احباب میری طرح خوش حال کاروباری دوستوں پر مشتمل تھا۔ دنیا داری میں محو ہو کر دین و آخرت کچھ ایسی بھول جاتی تھی کہ بس۔۔۔ حضرت جی کی ماہانہ محفل نہ ہوتی تو جانے ہم ہوس پرستوں کا کیا بنتا۔
گذشتہ چند ہفتوں سے تو حضرت کے تجویز کردہ وظائف کرونا کی وبا میں عالمی شہرت پا رہے تھے۔ آئے روز کسی نہ کسی چینل پر مرشد پاک یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا پردہ چاک کر رہے ہوتے تھے۔ جمعے پر پابندی کے خلاف تو حضرت نے باقاعدہ طور پر حکومت کو الٹی میٹم دے رکھا تھا۔ اللہ سلامت رکھے مرشد کو۔
اچھا بتاتا چلوں کہ اس محفل کی میزبانی کا شرف ہر مہینے کسی ایک خوش قسمت کو ملتا تھا۔ کل ملا کر 11,12 دوستوں کا گروپ تھا۔ باری باری حضرت ہر ایک کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ زہے نصیب، کم و بیش سال بعد ہر دوست کی باری آتی تھی۔ اتفاق سے میرے گھر گزشتہ چند برسوں سے گرمیوں میں ہی حضرت رونق افروز ہوتے تھے۔ گزشتہ سال ہی حضرت کی برکت سے چار ٹن کا الماری والا چلر بڑے ہال کمرے میں لگوایا تھا۔ حضرت کےدست مبارک سے ہی افتتاح کروایا تھا۔ حضرت نے خوش ہو کر بہت دعائیں دی تھیں۔
بھلا بندۂ ناچیز کس قابل۔ سب حضرت کا ہی تو فیض تھا۔ ارادہ تھا کہ اس سال ہمت کر کے حضرت کے آستانہ عالیہ پر بھی ایسا ہی چلر لگوا دوں گا۔ آخر اس گناہ گار کو حضرت نے خلافت سے نوازنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ مگر افسوس۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب کاروباری منصوبے ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ ویسے گذشتہ سال جب بڑے بیٹے ابراہیم سے ذکر کیا تو اس نے سختی سے منع کر دیا۔ کہتا تھا کہ چوکیدار کی تین بیٹیاں ہیں، ان پیسوں سے ان کی شادیاں کروا دیں۔
میرا یہ بیٹا امریکہ میں پڑھتا ہے۔ وہاں رہ کر تھوڑا وہابی سا ہو گیا ہے۔ حضرت کی کرامات و وظائف کا منکر۔ مجھے ڈر ہے کسی دن دین ایمان سے ہی نہ جاتا رہے۔ اس بار موسم بہار کی تعطیلات میں آیا تھا۔ اپریل کے شروع میں واپس جانا تھا مگر فلائٹس بند ہو جانے سے ادھر ہی رکنا پڑ گیا۔ میں نے سوچا چلو اچھا ہے۔ حضرت کی محفل ميں بیٹھے گا،کچھ ایمان تازہ ہو گا۔ مجھ سے بھی سوال جواب کم کرے گا۔
جس روز روحانی محفل تھی، میرے ساتھ سارے انتظامات میں شریک رہا۔ ہر چیز اہتمام سے دیکھی، رکھی۔ سنواری۔ مگر یہ کیا۔ حضرت کے آتے ہی اوپر جا کر اپنے کمرے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ بہتیرا کہلوایا، مگر مجال ہے جو صاحبزادے سلام کو نیچے اتر آئیں۔ حضرت کی محفل میں بس عجیب سی بے چینی رہی۔ بالکل ہی لطف نہیں آیا۔ حضرت ہر گھڑی دو گھڑی بعد کبھی گردن کھجلا رہے ہیں تو کبھی پاؤں۔ یہ مچھر کم بخت گرمی آتے ہی پتہ نہیں کہاں سے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ سپرے والوں کی دکانیں بند تھیں ورنہ سپرے ہی کروا لیتے۔ صاحبزادے نے زبردستی ابا سے لے کر سب قسم کے انتظامات تو کر لیے مگر مقامی حالات سے آگاہ نہ ہونے کی بنا پر ساری محفل کا مزہ خراب کر دیا۔ نہ تو مچھر بھگانے والی مشین لگائی اور نہ خود سپرے کرنے کی توفیق ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سچ ہے۔ یہ مغربی تعلیم کچھ بھی سکھا دے مگر تہذیب اور تمدن مشرق میں رہ کر ہی آتا ہے۔ حضرت کے ساتھ ساتھ سب اہل محفل کو کس قدر کوفت اور تکلیف ہوئی۔ مجھے رہ رہ کر شرمندگی ہو رہی تھی۔ حد تو یہ ہوئی کہ ملازم کو کئی بار بھیجا کہ سپرے یا مچھر مار لوشن یا مشین لے کر آ جائے تاکہ حضرت یکسوئی سے وظائف پورے کروا سکیں، مگر مجال ہے جو کسی کو ملے۔ سب کے سب نکمے۔ ناچار خود اٹھ کر دیکھا۔ پورا گھر چھان مارا۔ مگر نہ ملنی تھی نہ ملنی۔ بہت شرمندگی ہوئی۔
بالآخر اکرم کو بھیجا کہ دکان سے ہی کوئی سپرے یا ویپورائزر مشین پکڑ لائے مگر کہاں۔ 5 بجے ہی حکومت کی سختی کے باعث سب بند۔ اللہ پوچھے انہیں۔ اغیار کی سازشوں میں آ کر کاروبار تو بند کیے ہی تھے۔ جمعہ بھی بند کر دیا۔ ایک جمعے کے روز ہی مسجد جانا ہوتا تھا۔ وہ معمول بھی بند۔ حضرت کا فیض ہے کہ پوشیدہ رکھ کر ہی سہی، محفل کا ماہانہ معمول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر آج صاحبزادے کی نالائقی سے وہ بھی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سب دوستوں میں ناک کٹ گئی۔
تلاش میں ناکامی کے بعد واپس پہنچا تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ حضرت اختتامی دعا کروا رہے تھے۔ عموماً ایک گھنٹے سے کم نہیں ہوتی حضرت کی محفل پاک اور میرے ہاں تو حضرت اس قدر بشاشت سے محفل کرواتے ہیں کہ 2 گھنٹے بھی گزر جاتے ہیں۔ اس بار تو حضرت نے کرونا کا خصوصی وظیفہ بھی کروانا تھا۔ جس کے بعد ہم دوستوں کا ارادہ تھا کہ اپنی اپنی فیکٹریوں کے سب ورکرز کو خاموشی سے بلا کر کام شروع کیا جائے۔ یہ لاک ڈاؤن یا سوشل ڈسٹنس وغیرہ تو بس یونہی ہیں۔ کرونا کیا بیچتا ہے ہمارے مرشد کے وظیفے کے آگے۔
مگر آج ہمارے لخت جگر کی نالائقی سے مچھروں نے اتنا دق کیا کہ حضرت نے 20 منٹ میں ہی محفل ختم کروا دی۔ کھانے کے دوران بھی حضرت بے چین نظر آئے۔ میں نے معذرت بھی کی۔ مگر فرمایا تو اپنی روایتی شگفتگی سے بس اتنا: 'میاں ہم تو سمجھے تھے کہ ڈینگی پھیلانے کا ٹھیکا اس بار آپ کو ملا ہے۔' اللہ اللہ! کس قدر محبت سے فرمایا۔ میں تو عرق عرق ہو گیا۔
حضرت کھانے کے بعد کار کی طرف تشریف لے جانے ہی والے تھے کہ نجانے کہاں سے ہمارے ولی عہد ٹپک پڑے۔ دل تو کیا کان سے پکڑ کر حضرت کے سامنے پیش کروں۔ مگر جوان اولاد ہے۔ اوپر سے، باہر کی ہوا لگی ہوئی ہے۔ نجانے کیا رد عمل دے۔ خیر ہوئی کہ خود سے حضرت کو سلام کر دیا۔ حضرت نے مسکرا کر جواب دیا اور گردن پر مچھروں کے کاٹے کے نشان دکھا کر کہا: 'ابراہیم میاں، یہ دیکھیے آپ کے انتظامات کی محبت بھری نشانی۔' سب دوست ہنسنے لگے۔ میری آنکھیں ندامت سے جھک گئیں۔
مگر ابراہیم چہک کر بولا: 'حضرت! مچھر بھگانے والی مشین، لوشن اور سپرے۔۔۔ سب میں نے اپنی الماری میں چھپا دیے تھے۔ ابا بتا رہے تھے کہ آپ کو وائرس والا وظیفہ آتا ہے۔ میں نے سوچا شاید مچھروں والا دم بھی جانتے ہوں گے۔'
پس تحریر: حضرت نے ہمیں اپنی بیعت سے خارج کر دیا۔