کہتے ہیں سمجھدار کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ہماری سادگی دیکھیے اشارہ خود اچھل اچھل کر اپنے اشارہ ہونے کی تصدیق کر رہا ہے لیکن ہم اسے 'چل بے' کہہ کر ٹالے جا رہے ہیں۔ سالوں پہلےعامر خان نے بھی ہمیں رانگ نمبر سے خبردار کرنے کی اپنی سی ایک کوشش کی تھی، لیکن مجال ہے ہمارے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ ہم نے ان کی فلم دیکھی، تالی بجائی اور اپنی آنکھوں پر لگی عقیدت کی پٹی مزید کس لی۔
اس عقیدت کے پیچھے ہم نے اپنے بچے پولیو کا شکار کروائے، خود کو طرح طرح کی بیماریاں لگوائیں پر اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔ کرونا (کورونا) وائرس اپنا پورا زور لگا کر ہماری یہ بند آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہے پر ہم بھی اپنے نام کے ایک ہیں۔ اطاعت ہماری گھٹی میں پڑی ہے، اب چاہے پوری دنیا ہمیں خبردار کرتی پھرے، ہمیں پروا نہیں۔ ہم تو وہی کریں گے جس کا ہمارے پیر صاحب حکم دیں گے۔
انہوں نے کہا کرونا وائرس کافروں پر اللہ کا عذاب ہے، ہم نے کہا زندہ باد۔ انہوں نے کہا کرونا حرام گوشت کھانے والوں کو ہی ہوتا ہے، ہم نے پھر سے کہا زندہ باد۔ انہوں نے کہا دیکھو چین نے نقاب پر پابندی لگائی تھی، اب ان کا پورا ملک منہ چھپائے پھر رہا ہے، ہم نے سر دھننا شروع کر دیا۔ کرونا وائرس نے ایران میں تباہی پھیرنا شروع کی تو انہوں نے فرقہ واریت کو ہوا دینی شروع کر دی۔ ہم نے اس میں بھی اپنا پورا حصہ ڈالا۔ کرونا نے تبلیغی بھائیوں کے پیچھے دوڑ لگائی تو انہوں نے اسے اسلام کے خلاف سازش قرار دے دیا، ہم نے اسے سازش سمجھ لیا۔
انہوں نے کہا مساجد بند کرنا ضروری نہیں، لوگ سنتیں اور نوافل گھروں میں پڑھیں اور صرف فرض نماز ادا کرنے مساجد میں آئیں۔ ہم جان ہتھیلی پر رکھے مسجد کو چل پڑے۔ گرچہ ہمارے کانوں میں رانگ نمبر، رانگ نمبر گونجتا رہا لیکن سنتا کون ہے؟ پیر نے پہلے ہی بتایا ہوا ہے کہ شیطان ہمیں ان تک آنے سے روکے گا۔ ہم نے ان کی پیشن گوئی پوری ہونے پر سبحان اللہ پڑھا اور دوڑتے ہوئے ان کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلے روز پیر صاحب فرمانے لگے کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے جو ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو کر جان سے چلا جائے وہ شہید کہلائے گا۔ میں نے پوچھا اگر وہ ڈاکٹر غیر مسلم ہو تو؟ کہنے لگے اسے اس کے اعمال کا اجر دنیا میں ہی مل جائے گا۔ آخرت میں غیر مسلموں کے لیے بس دوزخ ہے۔
اس جواب پر آپ کی بہن کا منہ ہی بند ہو گیا۔ اس دنیا میں کفار ہماری خدمت کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس دنیا میں ان کا یہی کام ہے اور انہیں اس کا اجر یہیں ملے گا۔
دیکھیں نا اس دنیا کا جو ہرا بھرا، ٹھنڈا اور خوبصورت حصہ تھا وہ اللہ نے انہیں دے دیا، اپنا علم بھی ان کے آگے کھول کھول کر رکھ دیا، پیسے کی بھی بہتات کر دی، لیکن یہ پھر بھی سکون سے نہیں۔ دنیا میں کہیں آفت آ جائے یہ فوراً اپنی لیب میں گھس جاتے ہیں اور اس کا توڑ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ ابھی بھی لیب میں گھسے ویکسین بنا رہے ہیں جبکہ ہم چھت پر کھڑے ہیں۔
وزیرِاعظم کہہ رہے ہیں کہ جب تک لوگ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تب تک ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس وزیرِ اعظم سے ہمیں ویسے بھی کوئی امید نہیں۔ ہمارے پیر نے ہمیں اذان دینے کا حکم دیا ہے، ہم ان کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اذان دیں گے۔ پیر صاحب کہتے ہیں جس کی دنیا ہے، وہی سنبھالے، ہمارا کام بس اس کی عبادت کرنا ہے۔ جراثیم بھی اس نے پیدا کیا، اس کا توڑ بھی وہی کرے گا۔ کوئی ناس پیٹا کہہ گیا ہے خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، پیر صاحب کہتے ہیں کہ وہ شخص اللہ کو نہیں مانتا تھا ورنہ ایسا نہ کہتا۔
شکر ہے اس ذات کا جس نے ہم سب کو مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ جانے کس نے کان میں اذان دی اور کس نے شہد چٹایا، اللہ ان سب کا بھلا کرے۔ انہوں نے خود تو جنت کمائی، ہمیں بھی جنتی بنا دیا۔ پیر صاحب کہتے ہیں اب بس آرام سے بیٹھ کر روٹیاں توڑو اور اللہ اللہ کرو۔ آفت آئے تو انہی کفار کے علاج دریافت کرنے کی دعا مانگو اور جب وہ دوا بنا لیں تو پھانک لو۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
ہم سالوں سے ان کا یہی چورن خرید رہے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا مسئلہ اسی چورن سے حل ہو جاتا ہے، مسئلہ زیادہ بڑھے تو کفار کے بنائے نسخے بھی آزما لیتے ہیں۔ سلسلہ چل رہا ہے، چلنے دو۔ کیا کہا؟ یہ رانگ نمبر ہے؟ چل بے، بھاگ یہاں سے۔