وہ شخصیت جنہوں نے فاٹا میں 33 سال قبل صحافت کے نرم و نازک پودے کو بویا اور 30 سال تک اپنے خون پسینے سے پورے اس خطرناک علاقے میں اس کی آبیاری کر کے اسے ایک ایسا تناور درخت بنایا آج ہم میں نہیں۔ اسی درخت کے سائے میں آج ہم جیسے تن آسان صحافی آزادی کے ساتھ سکون کی سانس لے رہے ہیں۔
میری مراد جنوبی وزیرستان کے پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھنے والے سیلاب محسود سے ہے جن کا شمار اپنے علاقے، صوبے یا ملک نہیں بلکہ دنیا کے مایہ ناز صحافیوں میں ہوتا ہے۔
ٹرائبل یونین آف جرنلسٹ کے بانی صدر سیلاب محسود اگر ایک طرف ایک انتہائی نڈر، بیباک اور متوازن صحافی تھے تو دوسری جانب وہ ایک بہترین یونین رہنما بھی تھے۔ انہوں نے اسی کی دہائی میں باجوڑ سے وزیرستان تک قبائلی علاقے میں بار بار سفر کر کے یہاں نہ صرف صحافیوں کو پیدا کیا بلکہ ان کو منظم کر کے اپنا حق اور اپنے قوم کا حق حاصل کرنے کا گر سکھایا۔
پہلے پولیٹیکل انتظامیہ اور قبائلی روایات اور بعد میں طالبان اور حکومتی اداروں کی وجہ سے آپ اپنی صحافت میں ہمیشہ پل صراط پر چلتے رہے۔ لیکن ان کے اعصاب کی مضبوطی اور فن کی توازن کا یہ حال تھا کہ تمام تر دباؤ اور ٹینشن کے باوجود نہ خود ٹھوکر کھا کر گرے نہ ہی اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو گرنے دیا۔
سیلاب محسود ایک بہترین رپورٹر کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار، شاعر اور بہترین شکاری بھی تھے لیکن صحافت کے ساتھ جنون کی حد تک پیار ان پر اتنا غالب تھا کہ ان کی باقی خوبیاں ان کے دوستوں کے علاوہ باقی دنیا سے پوشیدہ ہی رہیں۔ آپ اپنے علاقائی زبان کے الفاظ کو اتنا زور دے کر ادا کرتے تھے کہ لہجہ انتہائی سخت اور متشدد لگتا تھا لیکن اندر سے انتہائی نرم مزاج پیار کرنے والے اور شفیق انسان تھے۔
سیلاب محسود کے ساتھ میرا تعلق بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا میرا صحافتی کیرئیر۔ آج جب وہ چٹان جیسی تناور شخصیت ہم میں نہیں ہے تو میں ان کو خراج تحسین پیش کرنے اور اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے ان کی چند یادیں قارئین کے ساتھ شریک کر رہا ہوں تاکہ تاریخ کا حصہ رہیں۔
دو ہزار پانچ میں ہم چند قبائلی صحافی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسلام آباد میں ایک ورکشاپ میں شریک تھے۔ ان دنوں شیخ رشید وزیر اطلاعات تھے۔ اختتامی تقریب میں آئے تو اپنے روایتی انداز میں پٹھانوں کے ناموں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ’یار پٹھان خود بھی قدآور اور مضبوط ہوتے ہیں مگر ان کے نام ان سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جیسے سیلاب محسود، طوفان خان، سمندر خان اخونزادہ چٹان وغیرہ۔ ہم پنجابیوں کے نام بھی ہماری طرح سادہ وکمزور ہوتے ہیں چنو منو وغیرہ۔‘ سیلاب صاحب نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’شیخ صاحب ہمارے کردار بھی ہماری جسامت اور ناموں کی طرح مضبوط ہوتے ہیں۔ کوئی آسانی سے ہمارا ارادہ بدل نہیں سکتا۔‘
دو ہزار آٹھ میں ہم بارہ صحافیوں کا ایک وفد سیلاب محسود کی قیادت میں انڈیا کے سرکاری دورے پر گیا تھا۔ انڈین پنجاب چندی گڑھ میں دو تین سکھ افسران ہمارے میزبان تھے۔ ہم جب آپس میں پشتو بولتے تو ایک آدھ لفظ ان کے پلے پڑ جاتا ورنہ وہ بےچارے ویسے ہی مسکرا کر رہ جاتے۔ دوسرے دن ان میں سے ایک سردار جی میرے پاس آئے اور پوچھا۔ آپ لوگ جب آپس میں بات کرتے ہیں تو پشتو بولتے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ اس نے پوچھا اور یہ سیلاب صاحب کیا عربی میں بات کرتے ہیں وہ تو ہمیں بالکل سمجھ نہیں آتی۔ (یاد رہے کہ سیلاب محسود پاکستان سمیت دنیا بھر میں گھومے، مگر اپنے ٹیٹھ اور سخت وزیرستانی لہجے میں رتی بھر فرق نہیں لائے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے بعض پشتو الفاظ ہم جیسے یوسفزئی لہجہ بولنے والے پشتونوں کو بھی بمشکل سمجھ آتے۔)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو ہزار آٹھ ہی کی بات ہے۔ پورے فاٹا میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کا سکہ بولتا تھا۔ ان کے معمولی کمانڈروں کے اشاروں پر لوگوں کے سر قلم ہوتے تھے پوری دنیا ان سے خوفزدہ تھی بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد امریکہ نے ان کے سر کی قیمت مقرر کی تھی اور میڈیا ان کے ایک ایک لفظ کا دیوانہ تھا۔ سیلاب صاحب نے حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود سے رابطے کئے اور انہی کی سربراہی میں پشاور و اسلام آباد سے راقم الحروف سمیت تقریبا 15 چیدہ چیدہ صحافیوں کا ایک وفد بیت اللہ محسود کا انٹرویو کرنے جنوبی وزیرستان پہنچ گیا۔ اس میں دوسروں کے علاوہ بی بی سی کے ہارون رشید، الجزیرہ کے احمد زیدان، خیبر ٹی وی کے محمود جان بابر، جیو ٹی وی کے بہروز خان اور خالد خان، دنیا کے ناصر داوڑ اور وائس آف امریکہ کے عالمگیر بیٹنی شامل تھے۔
وفد میں شامل زیادہ تر صحافی دوست نماز پڑھنے کے عادی نہ تھے مگر مسلسل اڑتے ڈرون جہازوں اور طالبان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفوں کا خوف اتنا زیادہ تھا کہ شدید بارش اور سردی کے باوجود تمام ساتھی بادل ناخواستہ ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے نماز باجماعت پڑھنے لگے۔ سیلاب صاحب ان تمام باتوں سے بےنیاز باتوں میں مشغول تھے۔ آخر کار حکیم اللہ محسود سے رہا نہ گیا اور کہا سیلاب صاحب نماز نہیں پڑھنا؟ سیلاب صاحب نے اپنے روایتی ٹیٹھ پشتو میں جواب دیا: ’زائے نور کلہ لہ خلائے لہ ڈرہ نہ کہ۔ کہ وسے دلے وکہ ٹول بہ ژغیگی چی لہ طالب لہ ڈرہ ای المونز اوکہ۔ یعنی میں معمول میں اللہ کی ڈر سے نماز نہیں پڑھتا اب اگر یہاں میں نے پڑھی تو سب لوگ کہیں گے کہ میں نے طالبان کی ڈر سے پڑھی ہے۔ لہذا رہنے دیں۔‘ حکیم اللہ محسود یہ جواب سن کر تلملا کر رہ گئے مگر مزید کچھ کہنے کی جرات نہ ہوئی اور خاموش رہے۔
سیلاب محسود ان خوش قسمت افراد میں سے تھے جنہوں نے جوانی اپنی مرضی سے گزاری۔ عمر کے آخری حصے میں اللہ تعالی نے ان کو توبہ تائب ہونے اور خود کو راضی کرنے کا بھرپور موقع دیا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ توبہ کیا، داڑھی رکھی، نماز باجماعت کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام کیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی تمام لغرشیں معاف کر کے انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ا ٓمین۔