امریکہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چین نے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کا دعویٰ کرنے کے باوجود خفیہ طور پر زیر زمین جوہری دھماکوں کا تجربہ کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جاری کردہ دستاویزات میں اس حوالے سے کوئی شواہد تو پیش نہیں کیے گئے، تاہم اس میں چین کے ایٹمی تجرباتی مقام لوپ نور پر 2019 کے دوران 'ایکسپلوسیو کنٹینمنٹ چیمبر' کے استعمال سمیت دیگر سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پہلی بار 'وال سٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والی ان دستاویز میں کہا گیا کہ 'لوپ نور ٹیسٹ سائٹ کو سال بھر چلانے کے لیے چین کی ممکنہ تیاری، ایکسپلوسیو کنٹینمنٹ چیمبر کا استعمال، لوپ نور میں کھدائی کی وسیع سرگرمیاں اور اس کے جوہری تجربوں کی سرگرمیوں میں شفافیت کے فقدان سے چین کی 'زیرو ییلڈ' کے معیار کے بارے میں خدشات بڑھاتے ہیں۔'
'زیرو ییلڈ' سے مراد ایک جوہری تجربہ ہوتا ہے، جس میں ایٹمی وار ہیڈ کے دھماکے کے برعکس کسی قسم کا دھماکہ خیز سلسلہ ظاہر نہیں ہوتا۔
جوہری تجربوں پر پابندی کے عالمی معاہدہ (سی ٹی بی ٹی) کے تحت جوہری دھماکوں کے تجربوں پر پابندی عائد ہے۔ چین اور امریکہ دونوں نے 1996 میں ہونے والے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود بیجنگ اس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی ٹی بی ٹی کی توثیق کرنے والے ممالک کسی بھی تشویش پر اپنے جوہری مقامات کے معائنے کی اجازت دینے کے پابند ہوتے ہیں۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ بیجنگ کی شفافیت کے فقدان میں سی ٹی بی ٹی او کے زیر نگرانی چلائے جانے والے مانیٹرنگ سینٹر سے منسلک سینسرز سے ڈیٹا کی منتقلی کو روکنا بھی شامل ہے۔ سی ٹی بی ٹی او ایک بین الاقوامی ایجنسی ہے، جو سی ٹی بی ٹی کی تعمیل کی تصدیق کرتی ہے۔
دوسری جانب سی ٹی بی ٹی او کے ترجمان نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ 2018 میں ریکارڈ کی گئی ایک رکاوٹ کے بعد اگست 2019 کے آخر تک چین کے پانچ سینسر سٹیشنوں سے ڈیٹا منتقل کرنے میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیجنگ پر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگانے کے بعد ان نئے الزامات سے دونوں ملکوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو اپنی پریس بریفنگ میں ایک بار پھر کرونا وبا کے بارے میں اپنے نظریے کا پرچار کیا، جو ان کے پسندیدہ چینل فاکس نیوز پر بھی کافی مقبول ہے، جس کے مطابق یہ وائرس کمزور حفاظتی کنٹرول کی حامل ووہان لیبارٹری سے نکلا تھا۔
صدر نے اشارہ دیا کہ شی جن پنگ نے حالیہ فون کال میں ان سے لیبارٹری کے بارے میں بات کی ہے لیکن یہ بھی کہا کہ جو کچھ ہوا اسے ظاہر کرنا اس وقت مناسب نہیں ہوگا۔
صدر ٹرمپ کے ان تبصروں نے قیاس آرائیوں کو بڑھاوا دیا ہے جب کہ بعد میں مائیک پومپیو نے بھی اس نظریے کی حمایت کی جس میں چین پر زور دیا گیا کہ وہ وائرس کی ابتدا کے بارے میں صاف گوئی سے کام لے۔
چند گھنٹوں بعد اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک سینیئر امریکی عہدے دار نے دعویٰ کیا کہ چین کی جوہری تجربات کی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات نے صدر ٹرمپ کے اس موقف کو تقویت دی کہ چین کو امریکہ اور روس کے ساتھ اسلحہ کنٹرول کرنے کے نئے معاہدے پر ہونے والی بات چیت میں شامل ہونا چاہیے۔
یہ نیا ممکنہ معاہدہ واشنگٹن اور ماسکو کے مابین 2010 کے 'نیو سٹارٹ' معاہدے کی جگہ لے گا جس کی میعاد فروری 2021 میں ختم ہورہی ہے۔ 'نیو سٹارٹ' معاہدے کے تحت امریکہ اور روس پر 1550 سے زیادہ جوہری وار ہیڈز بنانے پر پابندی عائد ہے، جو دہائیوں میں سب سے کم سطح ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاہدہ زمینی اور آبدوزوں کے ذریعے داغے جانے والے میزائلوں اور بمباروں کی تعداد کو بھی محدود کرتا ہے۔
ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ 'چینی حکومت جس طرح اور جس تیزی سے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنا رہی ہے وہ تشویش ناک اور عدم استحکام کا باعث ہے اور اس ضرورت کی عکاسی کرتی ہے کہ چین کو اسلحہ کنٹرول کے عالمی دائرہ کار میں کیوں لایا جانا چاہیے۔'
چین، جس کے پاس لگ بھگ 300 ایٹمی ہتھیار ہیں، بار بار صدر ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی جوہری قوت دفاعی نوعیت کی ہے اور اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔
دنیا کی پانچ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جوہری طاقتوں میں سے تین ممالک روس، فرانس اور برطانیہ نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط اور اس کی توثیق کی ہے تاہم اس کے باوجود اسے بین الاقوامی قانون بننے کے لیے 44 ممالک کی توثیق درکار ہے۔
چین اور امریکہ ان آٹھ اٰیٹمی ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی لیکن چین نے اپنی شرائط پر اس معاہدے پر عمل پیرا ہونے کا اعلان کیا ہے جب کہ امریکہ نے 1992 سے تجربوں کے حوالے سے خود پر یک طرفہ طور پر عارضی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
© The Independent