عام طور پر معذور افراد یا ان کی زندگی پر مبنی کہانیاں اور فلمیں سنجیدہ، رنجیدہ اور سبق آموز ہوتی ہیں۔ جن کا پلاٹ صرف معذور شخص کی مجبوری، لاچاری اور بے بسی کی داستان بیان کر رہا ہوتا ہے۔
مگر حال ہی میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی کامیڈی شارٹ فلم ’فروٹ چاٹ‘ نے اس دقیانوسی روایت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ معذور افراد بھی عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی انجوائے کرسکتے ہیں اور ایک معذور لڑکی بھی کسی فلم کی ہیروئن بن سکتی ہے۔
اس فلم کی ہدایات معیز عباس نے دی ہیں اور فلم کی کہانی تنزیلہ خان نے لکھی ہے، جو ’گرلی تھنگز‘ نامی سٹارٹ اپ کی بانی ہیں اور اس فلم میں ہیروئن کا کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔
ڈائریکٹر معیز عباس نے بتایا کہ دراصل تنریلہ ہی اس فلم کی کہانی ان کے پاس لے کر آئی تھیں اور یہ ان ہی کی خواہش تھی کی فلم اداس اور سنجیدہ نہ ہو بلکہ طنز و مزاح سے بھرپور ہو تاکہ ناظرین اسے انجوائے کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی فلم ’فروٹ چاٹ‘ کی کہانی کے حوالے سے بتاتے ہوئے تنزیلہ نے کہا: ’اس فلم کا سکرپٹ میں نے ایک سال پہلے لکھا تھا جس کے بعد ہم نے یہ سکرپٹ کئی معروف پروڈکشن ہاؤسز اور پروڈیوسرز کو بھیجا مگر انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان لوگوں کے لیے معذوری اور کامیڈی کا مرکب بہت نیا اور ناقابلِ فہم تھا۔ اس وجہ سے میں نے پیسے جمع کرنے شروع کیے اور ارادہ کیا کہ اب میں خود ہی اس فلم کو بناؤں گی۔ ‘
اس فلم میں تنزیلہ نے ایک ایسی خود مختار معذور لڑکی کا کردار نبھایا ہے جو حال ہی میں یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوئی ہے اور نوکری نہ ملنے کے باعث پھل فروش بن جاتی ہے، جو نہ صرف خود دکان چلاتی ہے بلکہ آن لائن شاپ کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں پھل بھی بھجواتی ہے۔
اس فلم میں معذوری اور کامیڈی کا امتزاج پیش کیا گیا ہے جبکہ عام طور پر یہ ایک سنجیدہ موضوع تصور کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے مذاق کرنا بھی کسی کی عزت نفس کو مجروح کرسکتا ہے، اس حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے تنزیلہ کا کہنا تھا: ’کیا معذور لوگوں کی زندگی میں مختلف رنگ نہیں ہوسکتے؟ ان کی زندگی ہمیشہ اتنی دکھ بھری کیوں پیش کی جاتی ہے؟ میرے والد ہمیشہ سے کہتے تھے کہ ہر تکلیف میں ایک مزاحیہ پہلو تلاش کرو تو زندگی بورنگ نہیں لگے گی اور اس فلم کی کہانی میں، میں نے یہی کیا ہے۔‘
تنزیلہ عرف فروٹ چاٹ والی شبانہ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ آفس کا سین شوٹ کرنے کے لیے پنجاب ویلفئیر ٹرسٹ فور ڈس ایبلڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی نے ان کے ساتھ بہت تعاون کیا۔اس فلم کے ہدایت کار معیز عباس کے مطابق یہ فلم ایک ہفتے کے قلیل وقت میں مکمل ہوئی لیکن اس کی پلاننگ میں انہیں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا۔ فلم کا بجٹ بھی انتہائی کم تھا کیونکہ یہ فلم تنزیلہ خان نے اپنے جمع کیے ہوئے پیسوں سے پروڈیوس کی تھی۔
معیزعباس نے بتایا کہ ’اس فلم کو بنانے کے لیے ہمارے پاس وقت اور بجٹ دونوں کی کمی تھی۔ ایک ہی دن میں فلم کے کرداروں نے ریہرسل کی اور اس کے اگلے دن ہم نے شوٹنگ شروع کردی جسے مکمل کرنے میں ایک سے دو دن لگے۔ فلم کی ایڈیٹنگ میں بھی دو دن سے زیادہ کا عرصہ نہیں لگا۔‘
شوٹنگ کے دوران ایک دلچسپ واقعہ یاد کرتے ہوئے معیز کا کہنا تھا کہ ’ایک سین میں ہمارے اداکار فرقان راجپوت بھکاری کا کردار ادا کر رہے تھے جس میں ہم نے یہ دکھایا ہے کہ بھکاری معذور ہونے کی ایکٹنگ کرکے لوگوں سے پیسے لے رہا ہے۔ جس وقت ہم اس سین کو شوٹ کر رہے تھے، لاہور میں بھکاری مافیا کے خلاف ایک مہم چل رہی تھی۔ شوٹنگ کے دوران پولیس نے آکر فرقان کو گرفتار کرلیا کیوں کہ وہ ٹھیک ہونے کے باوجود بھی بھیک مانگ رہا تھا۔‘معیز عباس اس فلم کے علاوہ دیگر فلمیں اور ڈراموں کی ہدایات بھی دے چکے ہیں جن میں فلم ’میں ہوں تیری گل ناز‘ اور مشہور ڈرامہ سیریل ’یاریاں‘ بھی شامل ہے۔ معیز کے مطابق تنزیلہ خان جیسی باہمت خاتون کے ساتھ شارٹ فلم ’فروٹ چاٹ‘ بنانے کا صرف یہی مقصد تھا کہ ہمارا معاشرہ معذور افراد کو ایک الگ نظر سے دیکھے اور انہیں ان کی قابلیت کی وجہ سے پہچانے، ان کی معذوری کی وجہ سے نہیں۔