پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں سلیم ملک پہلے اور واحد کھلاڑی ہیں جن پر تاحیات ہر قسم کی کرکٹ پر پابندی لگائی گئی اور وہ کرکٹ کے افق سے کسی گزرے ہوئے دن کی طرح ماضی کا حصہ بن گئے۔
1982 میں سری لنکا کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کرنے والے سلیم ملک دائیں ہاتھ کے سٹائلش بلے باز تھے۔
انہیں پہلی مرتبہ انڈر 19 میں کھیلتے ہوئے دیکھ کر مرحوم ٹیسٹ فاسٹ بولر خان محمد نے کہا تھا کہ سلیم ملک پاکستان میں کلائیوں کے زور پر شاٹ کھیلنے والے پہلے کرکٹر ہیں اور جلد ہی قومی ٹیم میں آجائیں گے۔
سلیم ملک لاہور کے ایک متوسط علاقے سے تعلق رکھتے تھے جہاں کرکٹ ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی اور اکثر باصلاحیت کھلاڑی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے تھے۔
سلیم ملک کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں جلد ہی قومی ٹیم تک رسائی مل گئی اور ابتدا میں ہی جاوید میاں داد جیسا کپتان ملا جس نے انہیں پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے میں بہت مدد دی۔
کلائیوں کے زور پر آہستگی سے کور ڈرائیو ان کا خاصیت تھی اور ان کی ٹائمنگ اور گیند کی پچ تک پہنچ قابل دید ہوا کرتی تھی۔ وہ فاسٹ بولرز کو اتنے ہی اعتماد سے کھیلتے تھے جتنا سپنرز کو۔
17 سال تک گرین کیپ پہننے والے سلیم ملک کے 103 ٹیسٹ میچ میں پانچ ہزار سے زائد رنز اگرچہ ان کی صلاحیتوں کے خلاف ہیں لیکن ایک روزہ میچوں میں سات ہزار سے زائد رنز ان کے دونوں فارمیٹ میں کارکردگی کو متوازن کرتے ہیں۔
وہ ایک خاموش طبع اور اپنے آپ میں مگن رہنے والے کرکٹر تھے۔ میدان میں وہ خاموش رہتے جبکہ میدان سے باہر بھی کم گو مشہور تھے۔
سلیم ملک کو سب سے زیادہ شہرت بھارت کے خلاف کلکتہ میں ایک روزہ میچ کے دوران صرف 36 گیندوں پر 72 رنز کی اننگز پر ملی تھی۔ اس فتح گر اننگز سے وہ ایک دم قومی ہیرو بن گئے۔
سلیم ملک کے کیرئیر میں 1987 میں دورہ انگلینڈ بہت اہم تھا جب انہیں برطانوی میڈیا نے بیحد سراہا تھا۔ ان کی لیڈز میں 99 رنز اور اوول کی سنچری چند بہترین اننگز میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ اس وقت کے کپتان عمران خان کے منظور نظر کھلاڑیوں میں شامل تھے۔
میچ فکسنگ کے الزامات
1994-95 میں زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران کپتانی کا تاج ان کے لیے بہت بھاری ثابت ہوا۔
زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے ساتھ شکستوں نے کچھ گڑبڑ کی نشاندہی کی جس کو تقویت عامر سہیل اور راشد لطیف کے بیانات نے دی اور پھر آسٹریلین کھلاڑیوں شین وارن اور ٹم مے نے الزامات عائد کیے کہ سلیم ملک نے انہیں پاکستان کے پچھلے دورے پر کراچی ٹیسٹ ہارنے کے لیے رشوت کی پیشکش کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلیم ملک پر لگنے والے الزام کو ان کے ایسسیکس کاؤنٹی کے ساتھی اور انگلینڈ کی نمائندگی کرنے والے ڈیرک پرنگل نے حیرت ناک قرار دیا۔ پرنگل کے مطابق سلیم ملک ایک شرمیلے اور تنہائی پسند انسان ہیں جو ہمیشہ عملی مسلمان نظر آئے اور اسلام میں رشوت حرام ہے۔ سلیم ملک نے تو ایک دفعہ انعام میں شراب کی بوتل بھی لینے سے انکار کردیا تھا تو وہ رشوت لیں ایسا کیسے ممکن ہے؟
میچ فکسنگ کے الزامات کا شور جب بڑھنے لگا تو اس وقت کے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک انکوائری ترتیب دی جس میں کپتان سلیم ملک پر میچ فکسنگ کے الزامات کی تحقیقات کی گئیں۔ ان خفیہ تحقیقات نے سلیم ملک کو بری تو کردیا لیکن میڈیا کو مواد دے دیا کہ کیا بورڈ کے کچھ افسران بھی فکسنگ میں ہمقدم ہیں یا نہیں۔
1999 کے ورلڈ کپ کے بعد ان کا کیرئیر توہین آمیز انداز میں ختم ہوگیا۔ وقفے وقفے سے لگنے والے فکسنگ کے الزامات اور ٹیم میں کھلاڑیوں کی آپس میں لڑائیوں نے سلیم ملک کی کارکردگی کو بدترین سطح پر پہنچادیا تھا اور اب ان کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
2000 میں میچ فکسنگ کی بازگشت نے پی سی بی کو مجبور کردیا کہ دوبارہ تحقیقات کی جائیں۔ جسٹس عبدالقیوم کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس میں وسیع پیمانے پر تحقیقات کی گئیں۔
کمیشن نے پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کے بعد بورڈ کو سفارشات پیش کیں جس کے نتیجے میں بورڈ نے سلیم ملک پرتاحیات پابندی لگا دی۔
ان کے ساتھ عطاالرحمن پر بھی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگی جب کہ وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، اور مشتاق احمد پر جرمانے کیے گئے۔
کمیشن اس بات کی وضاحت آج تک نہ کرسکا کہ وہ جرمانے اگر فکسنگ پر لگائے گئے تو پابندی کیوں نہیں لگی؟
تاحیات پابندی لگنے کے بعد سلیم ملک منظر سے غائب ہوگئے اور ان کے ساتھی کرکٹرز بھی انہیں بھول گئے۔ وہ مالی پریشانیوں کا بھی شکار رہے جبکہ فکسنگ کے الزامات نے ان کی سماجی زندگی بھی محدود کردی۔
2008 میں لاہور کی ایک مقامی عدالت نے سلیم ملک کی درخواست پر کیس کا دوبارہ جائزہ لیا اور تاحیات پابندی کو ختم کردیا اور سوال اٹھایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کس طرح اس قسم کی پابندی لگا سکتا ہے۔
عدالت کی جانب اس پابندی کے ختم ہونے کے بعد سلیم ملک نے اس وقت کے بورڈ سے رابطہ کیا تھا اور عملی طور پر بحیثیت کوچ فعال ہونے کی درخواست کی تھی۔
تاہم بورڈ نے 2012 میں سلیم ملک سے ان کی انگلینڈ میں کچھ مشکوک لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی وضاحت مانگی تھی جس کا سلیم ملک نے ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔ اس میٹنگ کی رپورٹ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کی تھی۔
حال ہی میں جب انضمام الحق اور ثقلین مشتاق نے سلیم ملک پر مزید پابندیوں کو ناانصافی قرار دیا اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بات کی تو سات سال کے بعد سلیم ملک نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح محمد عام،ر سلمان بٹ اور شرجیل خان پر سے پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں تو مجھ پر سے کیوں نہیں؟ انہوں نے تازہ مطالبے میں بورڈ سے تعاون کی بات کی ہے۔
پی سی بی کے لیگل ایڈوائزر تفضل رضوی نے سلیم ملک کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوہے مشورہ دیا کہ وہ پہلے اپنی انگلینڈ کی میٹنگ کا احوال بیان کریں جو مشکوک لوگوں سے ہوئی ہے۔
سلیم ملک نے اتوار کو ایک بیان میں میچ فکسنگ پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے آئی سی سی اور پی سی بی سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ تمام راز بتانے کو تیار ہیں۔
میچ فکسنگ کے گورکھ دھندے میں ملوث سلیم ملک بیس سال کے بعد آخر کون سے راز افشا کرنے کو تیار ہیں اور کن بڑے کھلاڑیوں کے نام مشتہر کریں گے جو ان کے اس گندے کھیل میں شانہ بشانہ تھے۔
کچھ کے متعلق تو عامر سہیل بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ تحقیقات ہونا چاہییے کہ کچھ اہم میچز سے پہلے اہم کھلاڑی آخری وقت میں کیوں دستبردار ہوتے رہے ہیں۔ غالباً ان کا اشارہ 1996 کے ورلڈکپ میں پاکستان اور بھارت کے کواٹر فائنل کی طرف تھا جس میں اس وقت کے کپتان باہر بیٹھ گئے تھے۔
سلیم ملک کیا انکشافات کرنے والے ہیں یہ ابھی تو نہیں کہا جاسکتا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ کچھ قوتیں سلیم ملک کے پیچھے ہیں جو پاکستان کرکٹ کے ساتھ دوغلی گیم کھیل رہی ہیں اور پچھلے سالوں میں فکسنگ کے متعدد شکوک کے باعث پاکستان کرکٹ جو پہلے ہی تنقید کا نشانہ ہے شاید مزید کچھ اور اپنے داغ نمایاں کرے گی۔
سلیم ملک کی زبان کھلنے سے خود ان کو کتنا فائدہ ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن ان کی زبان کشائی شاید کچھ معزز لوگوں کے چہروں سے نقاب ضرور کھینچ لے گی جو میچ فکسنگ کے کردار ہونے کے باوجود قومی ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔