بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ صفورہ زرگر گذشتہ تین ہفتوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی ریسرچ سکالر اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی میڈیا کوآرڈی نیٹر صفورہ پر دہلی میں رواں برس فروری میں بھڑکنے والے بھیانک فسادات کی ’کلیدی سازشی‘ ہونے کا الزام ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی جانب سے پچھلے سال دسمبر میں ’بھارتی شہریت‘ کے قوانین میں ترمیم کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے دوران دہلی میں بھڑکنے والے ان فسادات میں کم از کم 53 افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
گذشتہ روز جب دہلی میں مقیم ایک سینیئر کشمیری صحافی نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں صفورہ زرگر کی کشمیری شناخت ظاہر کی اور ان کے حاملہ ہونے کا انکشاف کیا، تب سے سوشل میڈیا پر اس ریسرچ سکالر کے حق میں تحریروں کا سیلاب دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کشمیری عوام یہ جاننے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہے کہ آخر بھارتی حکومت نے حاملہ صفورہ کو کیونکر تہاڑ جیل میں بند کر رکھا ہے، جہاں پہلے سے ہی درجنوں کشمیری مقید ہیں اور دو کشمیریوں (مقبول بٹ اور افضل گورو) کی باقیات مد فون ہیں جنہیں وہاں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔
جامعہ ملیہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی سرگرم رکن عائشہ رینا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صفورہ کو 10 فروری کو گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں حکومت نے ان کی ضمانت روکنے کے لیے ایک اور مقدمہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’صفورہ پر ایک مقدمہ تعزیزات ہند کی مختلف دفعات کے تحت درج کیا گیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی تقریر دلی تشدد کا موجب بنی۔
’گرفتاری کے دو تین دن بعد صفورہ کو ضمانت ملی لیکن جس دن جیل سے رہا ہونا تھا اسی دن ان پر ایک اور مقدمہ یو اے پی اے کے تحت درج کیا گیا جس کی وجہ سے ضمانت ملنا مشکل بن گیا ہے۔‘
بھارت میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف خصوصی انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اُس شخص کو دو سے سات سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس متنازع قانون کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ضمانت ملنا بہت مشکل ہے۔
کشتواڑ میں صفورہ کے اہل خانہ سخت پریشان ہیں۔ ان کی والدہ کرونا وائرس سے متاثرہ تھیں۔ اُس صدمے سے باہر آنے کے بعد اب پوری فیملی حاملہ صفورہ کی حفاظت کو لے کر پریشان اور فکر مند ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صفورہ کے والد شبیر حسین زرگر نے، جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری بیٹی ایک طالبہ ہے اور ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ ہم ان کی سیفٹی کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ آپ بھی ان کی رہائی کے لیے دعا کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صفورہ کے شوہر دلی میں ہیں اور وہ اُن کی فوری رہائی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ وکلا سے مسلسل رابطے میں ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے صفورہ کے شوہر سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا فون مسلسل بند آ رہا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ دہلی میں ایک نجی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور گذشتہ چند برسوں سے دہلی میں مقیم ہیں۔
کشتواڑ میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیئر لیڈر ایڈوکیٹ فردوس احمد ٹاک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بے شک یو اے پی اے کے تحت درج ہونے والے مقدمے میں ضمانت ملنا مشکل ہے لیکن چونکہ صفورہ حاملہ ہیں، تو انہیں اس کے پیش نظر ضمانت ملنی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک حاملہ ریسرچ سکالر کو تہاڑ جیل میں بند رکھنے سے ملک کی موجودہ صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہیں اختلاف رائے کی آواز بلند کرنے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ میں ان کے اہل خانہ سے رابطے میں ہوں اور دہلی میں ان کے شوہر کیس فالو کر رہے ہیں۔‘
کشمیری سیاست دان اور سابق بیورو کریٹ ڈاکٹر شاہ فیصل کی جماعت جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ کے ترجمان ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جا رہا ہے وہیں بھارت میں انسانیت کچلی جا رہی ہے۔
بقول ان کے ایک حاملہ ریسرچ سکالر کو تہاڑ جیل میں بند رکھنا بھارت کی جمہوریت پر لگنے والا ایک بدنما داغ ہے۔
ڈاکٹر مصطفیٰ نے اپنی جماعت کے سرپرست ڈاکٹر شاہ فیصل کا، جنہیں گذشتہ برس اگست سے مسلسل سری نگر میں بند رکھا گیا ہے، ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کی حکومت قوم کی آواز بننے کے لیے سامنے آنے والے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ آپ کے پاس ایک مثال ڈاکٹر شاہ فیصل کی بھی ہے۔ انہیں بھی بغیر کسی جرم کے بند رکھا گیا ہے۔‘
سرگرم سماجی کارکن گفتار احمد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دہلی میں کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر جیسے بی جے پی لیڈران نے دن دھاڑے ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑایا لیکن وہ آزاد ہیں جبکہ صفورہ جیل میں ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کیا 10 فروری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گھس کر طلبا کو مارنے والی پولیس کے لیے کوئی قانون نہیں؟ صفورہ کے پیٹ میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ اگر ہم ان کے حق میں نہیں بولیں گے تو ہم انسان کہلانے کے لائق نہیں۔‘
بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق صفورہ کو ہفتے میں دو بار اپنے گھر والوں اور وکلا کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
انہیں ایک اور خاتون کے ساتھ بند رکھا گیا ہے اور رپورٹ کے مطابق حاملہ ہونے کے پیش نظر انہیں معقول طبی نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ روزے بھی رکھتی ہیں۔
صفورہ کی کشمیری شناخت
صفورہ کے آبائی علاقے کشتواڑ کو چھوڑ کر کشمیر میں چند روز پہلے تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک کشمیری خاتون ہیں۔
دہلی میں مقیم سینیئر کشمیری صحافی مزمل جلیل، جو بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے ساتھ بحیثیت ڈپٹی ایڈیٹر وابستہ ہیں، ہی صفورہ کی کشمیری شناخت اور حاملہ ہونے کی خبر سامنے لائے ہیں۔
انہوں نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ’چناب ویلی کے کشتواڑ سے تعلق رکھنے والی صفورہ زرگر پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور وہ تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ وہ جامعہ سے ایم فل کر رہی ہیں اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی میڈیا کوآرڈی نیٹر ہیں۔
’پولیس نے ان پر دہلی میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا حصہ ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ حاملہ ہیں۔ ایک حاملہ خاتون کو جیل میں ڈالنا غیر انسانی فعل ہے، وہ بھی تب جب وبا پھیلی ہو۔ یہ افسوس ناک ہے کہ صفورہ کو لے کر جموں وکشمیر میں لوگ خاموش ہیں۔‘
بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد میں واقع ایک مرکزی یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر تجمل اسلام نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا: ’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تین ماہ کی حاملہ صفورہ کشمیر کی بیٹی ہیں۔ وہ کشتواڑ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ غیر معمولی خاموشی کیوں؟‘
گرفتاریوں کا مقصد کیا ہے؟
بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے گذشتہ برس دسمبر میں شہریت ترمیمی بل کو بھارتی پارلیمان میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔
اس بل کے ذریعے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور مسیحی برادری کے افراد کو بھارتی شہریت دی گئی۔ تاہم اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ قانون متنازع بن گیا۔
اس متنازع قانون کے خلاف جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے پرامن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا اور اس سے وابستہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق و موجودہ طلبا کا کہنا تھا کہ یہ قانون بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی پہلی سیڑھی ہے۔
جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے پرامن احتجاجی مظاہروں کے بعد بھارت کی کئی ریاستوں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
حکومت دہلی میں بھڑکنے والے بھیانک فسادات کے لیے جامعہ کے طلبا کو قصوروار ٹھہرا رہی ہے اور اب تک متعدد طلبا کو یو اے پی اے قانون کے تحت جیلوں میں بند کیا جا چکا ہے۔
جامعہ ملیہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی سرگرم رکن عائشہ رینا کہتی ہیں کہ ’حکومت جانتی ہے کہ جے سی سی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف برسر احتجاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کو ہدف بنایا جارہا ہے۔‘
’حکومت سوچ رہی ہوگی کہ ہم انہیں دبائیں گے تو یہ کرونا سے چھٹکارا ملنے کے بعد احتجاج نہیں کریں گے لیکن ہم نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ حکومت چاہے جو بھی کرے اور جتنوں کو بھی جیل میں ڈالے، ہم کرونا سے نجات ملنے کے بعد پھر سے احتجاج کریں گے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’حکومت ہمارے احتجاج سے خوف زدہ ہے۔ ہمارا احتجاج پہلے ہی حکومت کے لیے درد سر بنا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جے سی سی سے وابستہ صفورہ جیسے کارکنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ ملک پر اس وقت ایسی صورتحال سایہ فگن ہے جس میں لوگوں کو کرونا کے علاوہ حکومت کی شہ پر پھیلائے جانے والے ہندوتوا وائرس کا بھی سامنا ہے۔‘
عائشہ نے کہا کہ جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اراکین کی سرگرمیوں پر خفیہ ادارے اور دہلی پولیس نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ایک وٹس ایپ گروپ کے ذریعے آپس میں جڑے تھے، جس کو بند کیا گیا ہے، لیکن انفرادی طور پر ہم ایک دوسرے کو فون کرتے ہیں اور مستقبل کی حکمت عملی پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔