کانچ کے برتن ہوں یا پھرسلور، شیشے اور پلاسٹک کے، جب بھی آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان کی آواز انتہائی ناگوار محسوس ہوتی ہے۔
تاہم دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک خاص طریقے سے برتنوں سے ایسی آواز پیدا کرتے ہیں جو دماغی سکون کا باعث بنتی ہے اور اضطرابی کیفیت سے نجات دلاتی ہے۔ عام زبان میں اس عمل کو ’ساؤنڈ ہیلنگ‘ کہا جاتا ہے۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس کی رہائشی خاتون یوگی رمشہ علی تانبے کے بنے برتنوں کے ذریعے ایسی آوازیں پیدا کرتی ہیں جن سے ذہنی تناؤ، پریشانی اور تھکن دور ہوتی ہے۔
رمشہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ چند سال پہلے نیپال گھومنے گئی تھیں، جہاں انہیں پہلی بار تبتی پیالوں کی آواز سے ذہنی تناؤ دور کرنے کے بارے میں پتہ چلا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں نے پہلی بار جب ساؤنڈ ہیلنگ کا سیشن لیا تو ایسا محسوس کیا جو زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔
'اس کیفیت نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ پاکستان واپس آنے کے کچھ عرصے بعد میں پھر نیپال گئی جہاں سے میں نے ناصرف یوگا بلکہ تبتی پیالوں کو بجانے کا کورس بھی کیا۔'
رمشہ اب کراچی میں ںاصرف یوگا سکھاتی ہیں بلکہ تبتی پیالوں کی آواز سے ڈیڑھ گھنٹے کے سیشن میں لوگوں کا تناؤ دور کرنے میں ان کی مدد بھی کرتی ہیں۔
امریکہ کی اریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی شائع کردہ تحقیق ’آواز کی شفایابی کے طریقوں کا ایک جائزہ‘ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آواز کی شفایابی کا براہ راست تعلق اکوسٹیکل وائبریشنز یا آسان الفاظ میں آواز کی لہروں سے ہے جو برتنوں کو خاص طریقے سے بجانے سے پیدا ہوتی ہیں۔
'ان لہروں کا اثر انسان کے اعصابی سرگرمیوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آواز سننے میں کیسی ہے اچھی یا بری۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ آواز کی لہریں کتنی تیز ہیں اور ان کا طول و عرض کتنا ہے۔'
اس تحقیق کے مطابق آواز کی شفایابی ان لوگوں پر بھی استعمال کی جا سکتی ہے جو سماعت سے محروم ہیں، کیوں کہ وہ سن نہیں سکتے مگر وائبریشنز یعنی آواز کی لہروں کو محسوس کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اس تکنیک کے ذریعے کسی بیماری کا مستقل علاج یا اسے جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
آواز کی شفایابی صرف عارضی طور پر جسمانی و ذہنی سکون فراہم کرسکتی ہے مستقل طور پر نہیں۔