یہ قطر میں مقیم بہن کے ساتھ فون پر گفتگو تھی جس کے دوران معروف ہالی وڈ اینیمیشن آرٹسٹ ریم علی ادیب کو منفرد خیال آیا۔
کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے دنیا کے باقی ممالک کی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی بچے گھروں تک محدود ہو چکے ہیں۔ انہیں عربی زبان میں اتنا مواد نہیں ملتا جس سے وہ کچھ سیکھ سکیں یا لطف اندوز ہو سکیں۔
شامی نژاد ریم علی ادیب وارنر برادرز انٹرٹینمنٹ میں کام کرتی ہیں۔ وہ امریکی شہر لاس اینجلس میں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے قطر میں ایک یونیورسٹی میں پڑھانے والی اپنی بہن سینڈی کے ساتھ مل کر یہ کام اپنے ذمے لینے کا سوچا۔
ان دونوں نے ایک یوٹیوب چینل بنایا جس کا نام 'سوسوپریمو' رکھا گیا۔ اس چینل کا مقصد عربی بولنے والے بچوں اور ان کے والدین کو کرونا لاک ڈاؤن کے دوران ذہنی تناؤ سے بچانا، مصوری سکھانا، کاغذ سے مختلف اشیا بنا کر دکھانا یا بچوں کی کتابیں عربی میں پڑھنا ہے۔
علی ادیب کہتی ہیں: 'اس کا مقصد ایسی ویڈیوز بنانا ہے جوبچوں کو متوجہ کر سکیں۔'
علی ادیب نیٹ فلِکس سیریز 'گرین ایگ اینڈ ہام' پر کام کر چکی ہیں، جو ڈاکٹر سیوس کے کردار پر بنائی گئی بچوں کے لیے ایک سیریز ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے انگریزی زبان میں بہت مواد موجود ہے لیکن عربی میں ان کے لیے بہت کم اوریجنل مواد دستیاب ہے۔ 'ہمارا مقصد بچوں کے سکرین ٹائم کو متاثر کن بنانا ہے اور اس میں ہم انہیں ڈرائنگ، کتابیں پڑھنا یا دوسری نئی چیزیں سکھا رہے ہیں۔'
علی ادیب ان دنوں اپنے دوسرے سیزن پر گھر سے کام کر رہی ہیں۔ علی ادیب کی بہن کے ساتھ ان کے بیٹے عمر بھی اس کام میں شریک ہیں اور وہ اپنے ہم عمروں کو کاغذ سے مختلف اشیا بنانا سکھا رہے ہیں۔
علی ادیب کا کہنا ہے کہ 'وہ سب سے بہتر کام کر رہے ہیں اور ابھی تک ہمارے ساتھ تین ویڈیوز ریکارڈ بھی کروا چکے ہیں۔' جبکہ سینڈی بچوں کے لیے کتابیں پڑھ کر اپنے نو عمر ناظرین کو سوچنے کا سلیقہ سکھا رہی ہیں۔'
اے ایف پی کے ساتھ میل کے تبادلے میں ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے سوچا میں بچوں کے لیے کتابیں پڑھوں خاص طور پر ایسے وقت میں جب کتاب خریدنا یا دینا بہت مشکل ہے۔ میں تین سے چھ سال کے بچوں کے لیے کتابیں چن چکی ہوں اور باقی عمر کے بچوں کے لیے بھی کتابیں تلاش کر رہی ہوں جو انہیں زیادہ وقت کے لیے مصروف کر سکیں۔'
ابھی تک بچوں اور ان کے والدین کی جانب سے اس یوٹیوب چینل کے حوالے سے بہت مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔
بچے یہاں اپنی ڈرائنگز ای میل سے بھیج کر دکھا رہے ہیں جبکہ والدین اب بچوں کی شرارتوں سے محفوظ اپنی ضروری میٹنگز میں مصروف ہیں۔
جنگ سے متاثرہ مشرق وسطیٰ کے بچے کرونا وبا سے پہلے بھی حالات کی سختیوں سے متاثر تھے۔ ماہرین کے مطابق ایسے ٹیٹوریلز گھروں میں مقیم بچوں کے ساتھ ساتھ پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے بچوں کے لیے بھی مددگار ہو سکتے ہیں۔
یونیسف کی کنسلٹنٹ سوہا بسات کا، جو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مقیم ہیں، کہنا ہے کہ ایسے ٹیٹوریلز خطے میں عربی بولنے والے بچوں کی صلاحیتیں نکھارنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔
سوسوسپریمو جیسے اقدامات بچوں کو زندگی کی مثبت سمت کے ذریعے عام زندگی کی جانب راغب کر سکتے ہیں۔'
علی ادیب، ان کی بہن اور بھانجے نے اب تک سات ویڈیوز بنائی ہیں اور وہ وبا ختم ہونے کے بعد بھی اس پر کام کرنا چاہتے ہیں۔
علی ادیب کہتی ہیں 'میں سوچ رہی ہوں بچوں کو مقبول کارٹون کردار بنانا سکھاؤں۔ میں اپنے دوست کی مدد سے بچوں کو رقص کرنا بھی سکھانا چاہتی ہوں۔ بہت کچھ ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔'