چین میں ایک رپورٹ میں حکومت کو خبردار کیا گیا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے پیش نظر ملک کو بڑھتی ہوئی دشمنی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات محاذ آرائی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز کو اس رپورٹ سے واقفیت رکھنے والے لوگوں نے اس بارے میں مطلع کیا ہے۔
ذرائع نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ گذشتہ ماہ کے شروع میں ریاستی سلامتی کی وزارت نے بیجنگ کے چوٹی کے رہنماؤں کو پیش کی تھی جن میں صدر شی جن پنگ بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1989 میں تیانمن سکوائر میں جمہوریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد سے یہ دوسرا موقع ہے کہ عالمی سطح پر چین مخالف جذبات عروج پر ہیں۔
نتیجے کے طور پر کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد چین کو امریکہ کی جانب سے مخالفت کی شدید لہر کا سامنا ہے جس کے پیشِ نظر حکومت کے لیے ضروری ہے کہ انتہائی خراب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان مسلح محاذ آرائی کے لیے تیار رہے۔
رپورٹ کی تفصیل سے واقف لوگوں نے اس معاملے کی سنگینی کے پیش نظر اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ رپورٹ تھنک ٹینک اور عالمی تعلقات سے متعلق چینی ادارے (سی آئی چی آئی آر) نے تیار کی ہے جو ملک کے اعلیٰ خفیہ ادارے ریاستی سلامتی کی وزارت سے منسلک ہے۔
روئٹرز نے بریفنگ پیپر نہیں دیکھا لیکن اس کے بارے میں ان لوگوں نے بتایا جو اس میں درج نتائج کا براہ راست علم رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے بارے میں روئٹرز کے سوالات کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’میرے پاس متعلقہ معلومات نہیں ہیں۔‘
چین کی ریاستی سلامتی کی وزارت سے رابطے کا کوئی ذریعہ دستیاب نہیں ہے اس لیے اس کے ساتھ رپورٹ پر تبصرے کے لیے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔
روئٹرز یہ تعین نہیں کر سکا کہ اس رپورٹ میں جو تجزیہ کیا گیا وہ کس حد تک سنگین ہے اور اس حوالے سے چین کے ریاستی رہنماؤں کا کیا مؤقف ہے، اور یہ کہ اگر چین کی ریاستی پالیسی پر اس کا کوئی اثر پڑا تو کس حد تک پڑے گا؟ لیکن یہ رپورٹ پیش کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین ردعمل اکٹھا ہونے کے معاملے کو جو چین کی سمندر پار سٹریٹیجک سرمایہ کاری کے خطرہ بن سکتی ہے اور سلامتی پر اپنے موقف کو کتنی سنجیدگی سے لیتا ہے۔
کئی دہائیوں سے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات اپنے بدترین مقام پر چلے آ رہے ہیں۔ بداعتمادی بڑھ رہی ہے اور امریکہ کی جانب سے غیرمنصفانہ تجارت اور ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے الزامات سے لے کر ہانگ کانگ، تائیوان اور جنوبی چین کے سمندر میں متنازع علاقوں کی وجہ سے اختلاف میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چین کی رپورٹ میں نتیجہ نکالا گیا ہے کہ امریکہ چین کی ترقی کو معاشی اور قومی سلامتی کو لاحق خطرے اور مغربی جمہوریتوں کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا کر چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے اثر کو کم کرنا چاہتا ہے۔
دو طرفہ الزام تراشی
کرونا وائرس کے باعث دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ گذشتہ روز امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ’زبردست‘ شواہد موجود ہیں کہ کرونا وائرس چین کی ایک لیبارٹری سے نکلا ہے۔
البتہ انہوں نے کہا کہ وائرس قدرتی ہے اور مصنوعی طور پر تیار نہیں کیا گیا۔
اس کے جواب میں پیر کو سرکاری چینی اخبار میں ایک اداریہ شائع کیا گیا ہے جس میں الزام لگایا گیا کہ مائیک پومپیو دھوکہ دہی سے کام لے رہے ہیں اور اگر ان کے پاس کوئی شواہد ہیں تو سامنے لے کر آئیں۔
اخبار نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پومپیو امریکی صدر ٹرمپ کو اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں جتوانے کے لیے امریکی انتظامیہ کی کرونا وائرس سے نمٹنے میں نااہلی پر سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔