کہتے ہیں شوق کا کوئی مول نہیں۔ بچپن میں اکثر بچے جہاز اڑانے کا شوق رکھتے ہیں، کچھ کا یہ شوق پائلٹ بن کر پورا ہو جاتا ہے مگر کچھ اپنا یہ شوق جہاز اڑا کر تو نہیں البتہ اسے بنا کر پورا کر لیتے ہیں۔
عمر عزیز ٹیپو بزنس مین ہیں، عمیر اقبال ایک چارٹرڈ اکاؤٹینٹ اور یوسف علی ایک سینیئر بینک افسر۔ یہ تینوں دوست بھی جہاز اڑانے کا شوق رکھتے تھے مگر کسی وجہ سے پائلٹ تو نہیں بن سکے مگر انہوں نے اپنا شوق جہازوں کے سکیل ماڈلز بنا کر پورا کیا۔
عمر نے 2017 میں 'سکیل ماڈلنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان' کے نام سے ایک کلب بنایا۔ اس کلب میں چھوٹے، بڑے، بزرگ، نوجوان درجنوں ممبرز ہیں، جن کی اکثریت پائلٹ تو نہیں مگر ڈاکٹر، انجینیئر، بزنس مین، آرٹسٹ وغیرہ ہیں۔
کچھ ایسے ارکان بھی ہیں جن کا ایوی ایشن سے تعلق تھا چاہے وہ سول ہو یا ایئر فورس اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جہازوں کا شوق ان کے سکیل ماڈلز بنا کر پورا کر رہے ہیں۔
اس کلب کا باقاعدہ کوئی دفتر نہیں بلکہ ارکان نے اپنے اپنے گھر میں ورک شاپ بنا رکھی ہے۔
ملک بھر میں پھیلے کلب کے ارکان اپنے اپنے شہروں میں اختتام ہفتہ کسی ایک رکن کی ورک شاپ پر اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کا کام دیکھتے، اپنا کام دکھاتے اور نئے جہاز بنانے کے حوالے سے بات چیت کرتے ہیں، البتہ سال میں ایک مرتبہ یہ ارکان لاہور میں ایک بڑی نمائش کرتے ہیں جس میں تمام سکیل ماڈلرز اپنے اپنے بنائے جہاز لے کر آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں مقابلہ ہوتا ہے جس کے مختلف درجات ہیں جیسے بگنرز، انٹرمیڈیٹ اور ماسٹر۔ ہر درجے میں بہترین جہاز بنانے والے کو انعام بھی ملتا ہے۔ گذشتہ دو برس میں اس کلب نے اپنے کام سے بین القوامی سطح پر بھی پہچان حاصل کی ہے۔
عمر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'برطانیہ کی انٹرنیشنل پلاسٹک ماڈلرز سوسائٹی نے، جو دنیا بھر میں سکیل ماڈلنگ کی نمائش یا ان کی دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہے، اس سوسائٹی کے کئی ملکوں میں اپنے چیپٹرزہیں، 2019 میں پاکستان میں ہمارے کلب کو عالمی درجہ دیا اور اب ہمارے کلب کا نام انٹرنیشنل پلاسٹک ماڈلرز سوسائٹی پاکستان چیپٹر ہوگیا ہے۔ '
عمر کا کہنا ہے کہ سکیل ماڈلنگ آسان کام نہیں، یہ محنت طلب کام ہے کیونکہ آپ کو جہاز کا ماڈل بالکل اصل جہاز کی طرح بنانا ہوتا ہے۔ اس کے رنگ، اس کی ساخت، اس پر موسم کے اثرات وغیرہ سب حقیقت کے قریب تر بنانے ہوتے ہیں۔
'آپ کو جو جہاز پسند ہو، چاہے وہ رائٹ برادرز کا بنایا ہوا پہلا جہاز ہو یا کوئی جنگی جہاز، کارگو پلین یا آج کے وقتوں کے جدید جہاز، ان سب کے حصوں پر مبنی کٹس مل جاتی ہیں جن کی قیمت کم از کم چار ہزار روپے ہوتی ہے اور اس کے علاوہ اس سے مہنگی کٹس بھی ملتی ہیں۔ '
عمر نے بتایا کہ کٹس کا بنیادی مٹیریل پلاسٹک ہے اس لیے اسے پلاسٹک ماڈلنگ بھی کہا جاتا ہے۔ 'ان کٹس میں جہاز کے تمام حصے موجود ہوتے ہیں مگر انہیں جوڑنا آُپ کا کام ہے جو کہ انتہائی محنت اور وقت طلب ہے۔'
ٹیپو کہتے ہیں کہ ان ماڈلز کو رنگنے کے لیے رنگ، برشز وغیرہ بہت مہنگے دستیاب ہوتے ہیں مگر ایک بار خریدے ہوئے رنگ مختلف جہازوں پراستعمال ہو جاتے ہیں۔
عمر اور ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ آج کل کے دور میں ٹیکنالوجی بہت ترقی کر گئی ہے اور ہم نے اپنے بچوں کو اس کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ یا تو ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں یا لیپ ٹاپ، ٹی وی یا موبائل فون کے استعمال میں مصروف رہتے ہیں۔
'ایسے میں ہم انہیں اس طرح کے کسی شوق سے متعارف کروا سکتے ہیں جس میں آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان سکیں۔'
عمر نے بتایا کہ بچپن میں جب انہیں عید یا پاس ہونے پر گھر کے بڑوں اور عزیز و اقارب سے پیسے ملا کرتے تھے تو وہ انہیں جمع کر کے جہازوں کی کٹس خریدتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ان کا اگلا قدم اس شوق کو بچوں میں متعارف کروانا ہے تاکہ انہیں کسی صحت مندانہ سرگرمی میں مصروف کیا جاسکے۔