قبائلی ضلع مہمند سنگ مرمر (ماربل) کے پتھر کے قیمتی ذخائر کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور یہاں سے ملک کے اندر اور باہر خوبصورت سنگ مرمر فراہم کیا جاتا ہے، تاہم آج کل مہمند میں سنگ مرمر کی تقریباً 80 فیصد کانیں بند ہیں، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس صنعت کو پوری طرح بحال کیا جائے تو یہاں روزگار کے مواقع میسر ہوں گے، جس سے غربت کم ہوگی۔
مہمند کے ایک رہائشی وزیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع مہمند میں زیارت پہاڑی کا سنگ مرمر نہ صرف پاکستان میں بلکہ ایشیا بھر میں مشہور ہے لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ٹھیکیداروں کو بلاسٹنگ کے لیے بارود نہیں مل رہا اور جن کانوں پر قومی تنازع ہے، وہاں صرف عدالتی پیشیاں ہوتی ہیں اور کام ختم نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہاں کام چل جائے اور سڑک بن جائے تو لوگوں کو سہولت ہو جائے گی، کاروبار چلے گا اور غربت میں کمی ہوگی۔
وزیر خان نے بتایا کہ قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام سے قبل جرگہ سسٹم تھا تو لوگوں کو جو مسئلے ہوتے تھے وہ مشیران کے ذریعے آپس میں بیٹھ کر ہی حل ہو جاتے تھے، لیکن اب جس کا بھی مسئلہ ہو وہ عدالت میں پیشیوں پر جاتا ہے، جہاں ایک تاریخ کے بعد دوسری تاریخ ملتی ہے اور کیس جلدی ختم نہیں ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع مہمند کے علاقہ گندہاب میں سنگ مرمر کے کارخانے کے مالک زاہد شاہ کو بھی کافی مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے روزگار پر اثر پڑا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی پالیسوں کی وجہ سے پہاڑ اور سنگ مرمر کی کانیں بند ہیں۔ پتھر نہیں مل رہا اور سڑک خراب ہونے کی وجہ سے کھلی کانوں تک گاڑیوں کے ذریعے سے رسائی بھی مشکل ہے تو اس سے ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے کیونکہ وہ گاہکوں کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہے۔
زاہد شاہ نے بتایا کہ مہمند کا سنگ مرمر مشہور ہے، جس میں زیارت کے ماربل، خانقاہ اور آج کل سٹرابیری ماربل کی بہت زیادہ مانگ ہے جبکہ زیارت وائٹ اور سٹرابیری ماربل یہاں کارخانوں میں تیار کرکے پنجاب، کراچی اور ملک کے دوسرے علاقوں کے علاوہ بیرون ممالک بھی بھیجا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'یہاں ماربل کے پہاڑ علاقے کے عوام کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں تاہم انضمام کے بعد حکومت نے کانوں کو لیز کرنے کا نیا قانون متعارف کرایا ہے جس سے اب کچھ علاقوں کے ماربل کی کانیں حکومت کی لیز کے مسائل کی وجہ سے بند ہیں اور مالکان عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں جکہ کچھ سنگ مرمر کی کانوں پر مقامی افراد کے آپس میں رائیلٹی پر اختلافات ہیں جس کی وجہ سے قیمتی اور خوبصورت سنگ مرمر کی اکثر کانیں بند پڑی ہوئی ہیں۔'
زاہد شاہ نے بتایا کہ خیبر پخنونخوا میں انضمام کے بعد ماربل کے کارخانوں اور دیگر کو پانچ سال کے لیے ٹیکس فری زون قرار دیا گیا تھا لیکن ہمارے بجلی کے بلوں میں ٹیکس ابھی تک شامل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ایک کارخانے دار ہر ماہ بجلی کے بل میں 80 ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک ٹیکس جمع کرواتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا: ’ٹیکس فری زون قرار دینے کے بعد ہم سے کیوں ٹیکس لیا جاتا ہے؟ یہ ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہمارے بجلی کے بلوں کو ٹیکس فری کیا جائے۔‘
زاہد شاہ نے ضلع مہمند میں حکومت کی جانب سے ماربل سٹی پراجیکٹ کے حوالے سے بتایا کہ حکومت نے تو ماربل سٹی کے لیے زمین لے لی ہے اور کچھ لوگوں نے کارخانوں کے لیے پلاٹ بھی لیے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے ترقیاتی کام بند ہونے کی وجہ سے کارخانے نہیں لگائے جا رہے۔
سنگ مرمر کے پتھر پہاڑوں میں سے بغیر کسی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے نکالے جاتے ہیں جس میں 40 سے 60 فیصد سنگ مرمر کے پتھر ضائع ہوجاتے ہیں۔
یہاں اگر تمام پتھر کی کانوں میں کام ہوتا ہو تو روزانہ کی بنیاد پر ڈھائی سے تین سو تک ٹرک لوڈ کیے جا سکتے ہیں جن میں سے فی ٹرک 60 ٹن کے پتھر ہوتے ہیں۔
ایک ٹن کی قیمت چار ہزار سے 12 ہزار روپے تک ہوتی ہے جس میں سے زیارت کا وائٹ ماربل پوری دنیا میں خصوصیت رکھتا ہے اور دھوپ میں ٹھنڈا ہونے کی خاصیت رکھنے پر زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔
سنگ مرمر کے بڑے پتھر تراشنے اور اسے مختلف سائز میں کاٹنے کے لیے کارخانوں میں لے جایا جاتا ہے لیکن ضلع مہمند میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف چند ہی کارخانے لگائے گئے ہیں۔
مچنی کے علاقے میں فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ماربل سٹی کی منظوری دی تھی جس کے لیے 600 ایکڑ سے زائد زمین بھی مقامی لوگوں سے خریدی جا چکی ہے اور وہاں پر بجلی کی گرڈ سٹیشن پر بھی کام مکمل کیا جاچکا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد فاٹا ڈویلمنٹ اتھارٹی کا وجود ختم ہوگیا، جس کے بعد ماربل سٹی پر کام بند ہو گیا اور کارخانے نہیں لگائے جا سکے ہیں۔
مہمند کے ماربل پتھروں کے لیے ضلع چارسدہ کے علاقے سبحان خوڑ کے مقام پر سو سے زائد ماربل کے کارخانے لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مہمند کا ماربل تراشے جانے کے لیے پشاور اور مردان میں واقع رشکئی ماربل انڈسٹریل سٹیٹ اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھیجا جاتا ہے، تاہم اگر مچنی میں قائم ماربل سٹی پر ترقیاتی مکمل کر دیا جائے تو ضلع مہمند کے عوام کے لیے روزگار کے بہت سے مواقعے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔