پنجاب میں کرونا (کورونا) وائرس کے پہھلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا نتیجہ یہ ہوا کو لاہو سمیت دیگر شہروں میں بڑے بازار اور مارکیٹ کھل گئے ہیں۔ جہاں لاک ڈاؤن میں اس نرمی سے دکاندار خوش تھے وہیں گاہکوں نے بھی کرونا وائرس کی پرواہ کیے بغیر بازاروں کا رخ کیا۔
مزنگ کی رہائشی سیدہ فرحت ان گاہکوں میں سے ہیں جہنوں نے پیر کو بازار کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے سنار کو فون کر کے پوچھ لیا جنہوں نے کہا کہ مزنگ میں بازا سارا کھلا ہے اور سناروں کی دکانیں بھی، تو وہ چلی گئیں۔
ان کے مطابق: ’بازار میں رش ویسا ہی تھا جیسے کرونا وائرس کی وبا سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ عید بھی آرہی ہے اور لوگ گھروں میں بند تھے، دکانیں بھی بند تھیں تو سبھی کو موقع مل گیا خریداری کرنے کا۔‘
سیدہ فرحت کا کہنا تھا کہ دکانوں پر یا بازار میں گھومنے والے گاہکوں میں سے کچھ نے تو ماسک اور دستانے پہن رکھے تھے مگر کچھ بغیر کسی احتیاط کے ہی گھوم رہے تھے۔ سماجی دوری کا بھی کوئی خاص اہتمام دکھائی نہیں دیا البتہ بیشتر دکانداروں نے ماسک وغیرہ پہن رکھے تھے۔
پنجاب حکومت نے ویسے تو 31 مئی تک لاک ڈاؤن میں توسیع کی ہے تاہم میں تمام ریٹیلرز اور چھوٹی بڑی دکانوں کو ہفتے میں چار دن صبح8 بجے سے شام 5 بجے تک کھلنے کی اجازت دی تھی جس کے نتیجے میں لاہور کے بازاروں میں اس ہفتے کے پہلے دن معمول سے زیادہ رش دکھائی دیا۔
عامر فراز ایک سینئیر بینک افسر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ وہ صبح جب بینک کے لیے نکلے تو انہیں لگا جیسے سڑکوں پر ٹریفک پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’بہت برا حال تھا۔ ہر طرف رکشے، چنگچیاں، گاڑیاں دکھائی دے رہیں تھیں۔ موٹر سائیکلوں پر تین تین لوگ بیٹھے تھے یہاں تک شہر میں گذشتہ کئی ہفتوں سے جو پولیس کے ناکے نظر آرہے تھے وہ بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’میں تو خوفزدہ ہو گیا ہوں کہ کیا ہوگا۔ لوگ تو غیر سنجیدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔ بیشتر تو کسی قسم کی احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کر رہے۔ اب آپ خود سوچیں ایک چنگچی رکشے میں آپ کونسی سماجی دوری اختیار کریں گے؟‘
لاہور کی شادمان مارکیٹ میں کپڑے کی دکان کے مالک عبداللہ خان نے انڈپیندنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کام بند پڑا تھا مگر جب دکان کھلی تو کاروبار بھی ہوا اور پیسے بھی بنے۔ ان کا کہنا تھا: ’میں بہت خوش ہوں کہ حکومت نے دکانیں کھولنے کی اجازت دی ہے۔‘
لبرٹی مارکیٹ کے صدر سہیل منج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب حکومت سے تاجران کی ملاقات ہوئی جس میں پولیس آفسران بھی موجود تھے اور انہوں نے اس میٹنگ میں جو ایس او پیز وضع کیے ان پر عمل کرتے ہوئے ہم نے لبرٹی مارکیٹ کھولی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’لبرٹی مارکیٹ میں کام کرنے والے تمام کاروباری حضرات نے سکھ کا سانس لیا ہے کہ ان کا کاروبار پھر سے چل پڑا ہے ۔ دکانداروں نے تمام احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے دکانوں پر کام شروع کیا ہے۔ گاہکوں کو دکان میں داخل ہونے سے پہلے سینیٹائزر دیا جارہا ہے اور ایک وقت میں چند گاہکوں کو دکان کے اندر آنے کی اجازت ہے۔‘
سہیل منج کا یہ بھی کہنا ہے کہ دکاندار تو تمام احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں گے مگر گاہکوں کو بھی چاہیے کہ وہ مارکیٹوں میں آتے ہوئے ماسک اور دستانے پہن کر آئیں اور اپنی احتیاط خود کریں۔
سہیل کہتے یں کہ اگر گاہک اور دکاندار حکومتی ایس او پیز کا خیال رکھیں گے تو لاک ڈائؤن کی نرمی برقرار رہ سکے گی ورنہ حکومت کو مجبوراً اسے عید کے بعد بڑھانا پڑے گا۔
ایم ایم عالم روڈ پر جوتوں کی ایک دکان پر کام کرنے والے عاشق حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صبح سے روڈ پر ٹریفک جام تھا، لوگ دکانوں پر ایسے آرہے تھے جیسے وہاں سیل لگی ہو۔
ان کے مطابق ان میں سے بیشتر کو نہ ماسک پہننے کی پرواہ تھی اور نہ ہی سماجی دوری کا کوئی خیال تھا۔
’دکاندار بھی کتنا روک لیں گے جب گاہک خود تعاون نہیں کریں گے۔ ہم تو صرف انہیں کہہ ہی سکتے ہیں۔ جب رش اتنا بڑھ جائے تو گاہکوں کو آپ کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں کہ ایک وقت میں پانچ لوگ دکان میں آئیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’عید میں دو ہفتے رہ جانے کے باعث بھی رش زیادہ ہے مگر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح کنٹرول کریں کیونکہ ایسے ہی رہا تو حکومت دکانیں پھر سے بند کر دے گی اور ہمارا کاروبار پھر ٹھپ ہو جائے گا۔‘