کرونا (کورونا) کی کرامات دیکھیں، پچھلے سال تک ’مجھے دعوتِ افطاری سے پیار ہے‘ کا پیغام بھیجنے والے اب ’سٹے ہوم، پلیز‘ کے میسج بھیج رہے ہیں۔
ان افطاریوں کی بھی اپنی ہی رونق ہوتی تھی۔ ریستورانوں نے ہم سے ہماری یہ رونق بھی چھین لی۔ اب رمضان شروع ہوتے ہی ریستوران اپنا اپنا سحری اور افطاری کا سپیشل مینیو جاری کرتے ہیں جو معدے اور جیب دونوں پر بھاری پڑتا ہے۔ گذشتہ سال ہمیں بھی ایسی ہی دو چار افطاریاں کرنے کا موقع ملا، بہت مزہ آیا۔ سوچا تھا اس سال بیجنگ میں افطاریاں کھائیں گے، کرونا نے ہم سے ہمارا یہ خواب بھی چھین لیا۔
اب کمرے میں بیٹھے اکیلے افطاری کرتے ہوئے وہ وقت یاد کرتے ہیں جب ہم اپنے گھر پر افطار پارٹیاں منعقد کیا کرتے تھے۔ پارٹی تو ایک فینسی لفظ ہے۔ ہمارے ہاں جو افطار ہوا کرتی تھی، اس کے لیے دعوت کا لفظ زیادہ مناسب رہے گا۔ اصل میں دعوت ہم نے اپنی کرنی ہوتی تھی، فارمیلیٹی نبھانے کے لیے کسی نہ کسی قریبی رشتے دار یا دوست کو بلا لیتے تھے۔ رشتے دار یا دوست ایسا ہوتا تھا جس کے سامنے ہم عام سے گھریلو حلیے میں بھی آرام سے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے۔ دعوت کا مینیو وہی ہوتا تھا جوایسی کسی بھی افطار کا ہو سکتا ہے، مکس پکوڑے، رول، سموسے، فروٹ چاٹ، دہی بڑے اور لال شربت۔ کھانے میں پلاؤ اور آلو گوشت اور میٹھے میں دودھ والی سویاں اور پھیونیاں۔
پھیونیوں کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ ہر محلے کی طرح ہمارے محلے میں بھی میں دو چار منگنی شدہ یا نکاح شدہ افراد موجود تھے۔ ہر عید پر ان کے سسرال والے ٹوکرے بھر بھر کر عیدی لاتے تھے۔ سسرالیوں کے جانے کے بعد یہ عیدی محلے بھر میں بانٹی جاتی تھی۔ پھیونیاں وصول کرنے کا یہ سلسلہ پہلے عشرے سے شروع ہوتا تھا اور چاند رات تک جاری رہتا تھا۔ ہمارے گھر میں ان پھیونیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہی افطار پارٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ کچھ لوگوں کو سحری میں پھیونیاں کھانی پسند ہیں لیکن ہم اپنی دیسی گھی سے چپڑی روٹی کم از کم پھیونیوں کے لیے قربان نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھیونیوں کا ہر نیا کھیپ وصول کرتے ہوئے ہمیں خوشی سے زیادہ دکھ ہوا کرتا تھا۔ ہمارے رسم و رواج ایک بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں۔ کپڑے، جوتے، زیورات اور میک اپ کا سامان تو استعمال ہو ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ آنے والے سموسوں اور پھیونیوں کے ٹوکرے دینے والے کو بھی مشکل میں ڈالتے ہیں اور لینے والے کو بھی۔ درمیان میں ہم ایسے بھی پسے جاتے ہیں جنہیں یہ سب کھانا پڑتا ہے۔
ہماری یہ دعوتیں لال شربت اور سکنجبین کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی تھیں۔ وہ الگ بات کہ روزے کی وجہ سے شربت چکھا نہیں جا سکتا، کبھی بہت میٹھا ہو جاتا تھا تو کبھی پھیکا رہ جاتا تھا، پھر بھی سب پی لیتے تھے۔
ہم نے کچھ ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جو ہر رمضان سے پہلے سادگی اپنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق ایسے اعلان کھوکھلے دعوؤں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ کھانے والے روزانہ پکوڑوں کے لیے بیسن بھی گھولتے ہیں اور فروٹ چاٹ کے لیے کریم بھی پھینٹتے ہیں۔ سموسے تو رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی بنا کر فریزر میں رکھ دیے جاتے ہیں۔
سموسوں کی بھی اپنی ایک داستان ہے۔ ہمیں تو ہر سموسہ ہی مزیدار لگتا ہے۔ آلو والا ہو یا قیمے والا، ہم ہر طرح کا سموسہ کھا لیتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ سموسے اپنے آپ میں ایک مکمل افطاری ہیں۔ میز پر کچھ نہ ہو، بس سموسے ہوں تو بھی میز بھری بھری سی لگتی ہے۔ افطاری کے علاوہ بھی شام کی چائے کے ساتھ سموسے نہ ہوں تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔
بیجنگ میں رہتے ہوئے اکثر کسی نہ کسی کانفرنس میں جانا پڑ جاتا ہے۔ چینی سنیک میں تازہ پھل اور خشک کیک کھاتے ہیں۔ چائے کے ساتھ پھل اور کیک کھاتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ واپسی سے قبل کم از کم انہیں سموسے بنانا ہی سکھا دیں۔ چینی نہیں تو مستقبل میں چین آنے والے پاکستانی ہمیں ضرور دعا دیں گے۔
فی الحال سموسے کھانے کے لیے بیجنگ میں موجود پاکستانی ریستورانوں میں جانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں جو سموسہ 20 روپے کا ملتا ہے وہ یہاں 20 یو آن کا خریدتے ہوئے دل بیٹھ سا جاتا ہے۔
آخر میں بس اتنا عرض کریں گے کہ افطاری کرتے ہوئے اپنے معدے کا ضرور دھیان رکھیں۔ دو چار دن بعد ہلکی پھلکی افطاری بھی کر لیا کریں تاکہ معدے کو بھی سکون ملے۔ آج کل کرونا بھی تاک لگائے بیٹھا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے افطاری کی میز پر بیٹھنے سے قبل صابن اور پانی سے ہاتھ دھو لیں۔ اللہ خیر رکھے گا۔