تینتیس (33) سالہ شاملہ بی بی گذشتہ 13 سال سے اس امید پر تھیں کہ خدا ایک نہ ایک دن ان کو اولاد کی نعمت سے نوزے گا۔ وہ 13 سال سے بھارت اور ترکی سمیت مختلف جگہوں سے علاج کروا رہی تھیں تاکہ وہ حاملہ ہو جائیں اور وہ اپنی اولاد کو دیکھ سکیں۔
خدا خدا کر کے اور تیرہ سال بعد حاملہ ہوئیں تو 12 مئی کی صبح وہ کابل میں موجود سرکاری زچہ و بچہ سینٹر جس کو غیر سرکاری ادارے میڈیسن سانس فرنٹئیر کی سپورٹ بھی حاصل ہے، ڈیلویری کی غرض سے چلی گئیں۔
لیلومہ حفیظی شاملہ کی دوست اور ان کی آنٹی کی بہو ہیں جن کے ساتھ وہ مختلف مواقع پر اولاد کے حوالے سے باتیں شئیر کرتی تھیں۔
لیلومہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شاملہ نے شادی کے بعد 13 سال اتہائی کرب اور ذہنی کوفت میں گزارے کیونکہ وہ ہمیشہ یہی سوچتی تھیں کہ اللہ انھیں اولاد کی نعمت سے نواز دے۔
انھوں نے بتایا کہ ’گذشتہ ہفتے شاملہ مجھے کہہ رہی تھی کہ وہ زندگی میں پہلے کبھی بھی اتنی خوش نہیں ہوئی جتنی اب ہے کیونکہ وہ سوچ رہی تھی کہ اگلے ہفتے ان کا بچہ اس دنیا میں آنکھیں کھولے گے۔‘
تاہم ان کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں جب تیرہ سال انتظار کرنے کے بعد آنے والا بچہ چند ہی گھنٹوں میں اس دنیا سے واپس چلا گیا۔
لیلومہ کے مطابق 12 مئی کو کابل میں زچہ و بچہ سینٹر پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شاملہ سمیت ان کا نومولود بچہ بھی شامل تھا۔
لیلومہ نے بتایا کہ 12 مئی کو سحری کے وقت شاملہ کو ہسپتال لے جایا گیا اور گھر والے یہی سوچ رہے تھے کہ شاملہ اپنے بچے سمیت صحیح سلامت گھر واپس آئیں گی لیکن ہسپتال میں حملے کے دوران شاملہ کا جسم جھلس گیا تھا اور ان کو ایک کپڑے میں لپیٹا گیا تھا جبکہ ان کے نومولود بچے کو ڈیلیوری روم میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیلومہ نے بتایا کہ شاملہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کے اکلوتے بھائی کو کابل میں عسکریت پسندوں کی جانب سے کچھ عرصہ پہلے اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ کابل جا رہے تھے۔
زچہ و بچہ مرکز پر حملے میں خبر رساں ایجنسی روئٰٹرز کے مطابق نومولود بچوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مرکز پر حملہ کرنے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے جبکہ افغان طالبان کی جانب سے اس حملے سے لا تعلقی کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایک ٹویٹ میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ’کابل کے دشت برچی علاقے میں (زچہ و بچہ مرکز) حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہیں۔‘ اسی دن افغانستان کے ننگرہار صوبے میں ایک جنازے کے دوران بھی دھماکہ ہوا تھا جس میں 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دوسری طرف طالبان کی جانب سے افغانستان کے صدر کے اس بیان کہ سکیورٹی فورسز طالبان پر حملوں کا آغاز کریں، کے جواب میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے لکھا گیا ہےکہ ’ہم داعش ملیشہ کی طرف سے کابل اور ننگرہار دھماکوں کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طالبان کے آپریشنز کی وجہ ہی تھی کہ انھوں نے اپنے علاقوں میں داعش کو سر اٹھانے نہیں دیا۔ اب جو دھماکے ہو رے ہیں یہ کابل کے سرکاری مہمان خانوں اور کابل حکومت کی ایما پر داعش کر وا رہے ہیں۔‘
طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جب سے ہم نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں تو کابل حکومت امن معاہدے کو خراب کرنے کے لیے مختلف رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔‘
’ہم کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور میدان جنگ اور اپنے لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔‘
عسکریت پسندوں کے معاملات پر نظر رکھنے والے ادارے سائٹ انٹیل کے مطابق کابل کے زچہ و بچہ مرکز پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ تاہم انڈپینڈنٹ اردو کو تاحال کسی اور آزاد ذارئع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔