’میں بھی بچوں کی ماں ہوں۔ جس وقت میں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی تو ہسپتال پر حملے میں یتیم ہونے والے نوزائیدہ بچے میرے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیا انہوں نے دودھ پی لیا ہوگا یا ابھی تک بھوکے ہوں گے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا کہ رضاکارانہ طور پر ہسپتال جا کر ان بچوں کو دودھ پلا دوں۔‘
یہ کہنا تھا فیروزہ یونس عمر کا جو دو دن پہلے کابل میں واقع ایک زچہ و بچہ سنٹر پر شدت پسندوں حملے کے بعد اُن بچوں کو دودھ پلانے رضاکارانہ طور پر پہنچ گئی تھیں جن کی مائیں حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ حملے کے بعد ان بچوں کو اتاترک ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس حملے میں دو ایسی مائیں بھی ماری گئی تھیں جن کے گود میں نوزائیدہ بچے تھے جب کہ دوسری ماؤں اور نرسوں سمیت مجموعی طور پر 24 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ خواتین کو لیبر روم میں مارا گیا۔
افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے گذشتہ روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ امریکی تجزیے کے مطابق یہ حملہ شدت پسند تنظیم داعش نے کروایا۔
دوسری جانب افغان طالبان نے اس حملے سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان کے صوبہ ہرات سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ فیروزہ کابل کی ایک یونیورسٹی میں نفیسات پڑھاتی ہیں اور ایک سرکاری دفتر میں کام بھی کرتی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ گھر میں تھیں اور اپنے چار ماہ کے بچے کو دودھ پلا رہی تھیں تو اس وقت ان کے ذہن میں کابل کے ہسپتال کے وہ بچے گھوم رہے تھے جن کی ماؤں کو ڈیلیوری روم میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے فیس بک پر پوسٹ لگائی کہ اگر ہسپتال میں بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کسی خاتون کی ضرورت ہے تو وہ رضاکارانہ طور پر آسکتی ہیں۔ اس کے بعد ہسپتال کے ایک ڈاکٹرنے فون کر کے انہیں جلد آنے کے لیے کہا۔
فیروزہ نے کہا: ’ہسپتال کے ڈاکٹر نے فون پر بتایا کہ بچے بہت زیادہ بھوکے ہیں اس لیے آپ جلدی سے ہسپتال پہنچ جائیں۔ میں اپنے چار ماہ کے بچے کو گھر میں چھوڑ کر ہسپتال پہنچ گئی اور وہاں بچوں کو دودھ پلانا شروع کر دیا۔ حملوں میں زخمی ہونے والوں کو لوگ خون دینے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں لیکن میں بچوں کو دودھ دینے پہنچ گئی کیونکہ ان کو دودھ کی ضرورت تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ حملے والا دن بہت خوفناک تھا اور بطور ایک ماں ان کی ساری توجہ ہسپتال میں ان بچوں پر تھی جن کے ماؤں کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ چند گھنٹے پہلے ہی اس دنیا میں آئے تھے اور ان کی ماؤں نے انہیں ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیروزہ نے بتایا کہ جب وہ ہسپتال پہنچیں تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ بچے بہت زیادہ بھوکے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ ان کا مذہب، رنگ اور نسل کیا ہے۔ انہوں نے بچوں کو بلا امتیاز دودھ پلایا جس سے انہیں سکون ملا۔ یہ اُن کی زندگی کا خوشگوار لمحہ تھا۔
فیروزہ نے بتایا: ’وہ بچے میرے لیے میرے بیٹے رایان کی طرح تھے جو اپنی ماؤں سے بچھڑ گئے تھے۔ ان کو اسی محبت سے دودھ پلایا جس طرح میں اپنے بیٹے کو پلاتی ہوں۔ میں نے کسی پر احسان نہیں کیا بلکہ اپنے اوپر فرض سمجھتے ہوئے ایسا کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں ہسپتال سے واپس آ کر واپس فیس بک پر پوسٹ لگائی جس میں انہوں نے دوسری خواتین سے اپیل کی کہ وہ بھی ہسپتال جا کر بچوں کو دودھ پلائیں کیونکہ انہیں دودھ کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا پر فیروزہ کے اس رضاکارانہ کام کو سراہا جا رہا ہے۔ فیس بک پر ایک خاتون بصیرہ صفا نے لکھا کہ فیروزہ نے یہ کام کر کے ان شدت پسندوں کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اس دھرتی کے بچے بغیر ماؤں کے نہیں رہیں گے بلکہ اس ملک کی ہر ایک ماں ان بچوں کی ماں ہوگی۔
ایک دوسرے فیس باک صارف ذبیح اللہ دولتزئی نے فیس بک پر لکھا ہے کہ اس عظیم ماں نے یہ افغانستان کے دشمنوں کو دکھا دیا کہ یہاں رہنے والے تاجک، ازبک، پشتون اور ہزارہ ایک ملت ہیں۔