غزہ میں لکڑی کے جھونپڑے تلے ایک 13 سالہ لڑکی محلے کے ان بچوں کو پڑھانے میں مشغول ہے جو مارچ کے بعد سے کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث سکولز جانے سے قاصر ہیں۔
بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع اس تنگ پٹی میں حماس کی حکومت ہے جہاں اب تک 20 لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اسرائیل اور مصر کے محاصرے کے باعث یہاں بیرونی دنیا سے آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود حالیہ مہینوں میں یہاں داخل ہونے والوں کو قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔
غزہ کی 13 سالہ رہائشی فجر حمید کا خواب ہے کہ وہ ایک دن ٹیچر بنیں گی اور اس کا عملی مظاہرہ انہوں نے ابھی سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ شروع میں ان کی کلاس میں محلے کے چار بچے شامل تھے اور اب یہ تعداد بڑھ کر 15 ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سفید حجاب میں ملبوس فجر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: 'میں ان کو یہاں جمع کر کے پڑھانا چاہتی تھی، میرے پاس یہ ہنر ہے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'میرے پاس پہلی جماعت کی ایک چھوٹی بچی ہے، اگر وہ پڑھائی سے ایک مدت تک دور رہتی تو وہ قلم پکڑنا اور لکھنا بھول جاتی۔'
صحت کے اس بحران کے دوران غزہ کے دیگر اساتذہ بھی آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔
فجر کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی صاحبزادی کے اس نئے کردار سے مطمئن ہیں۔
انہوں نے کہا: 'میں کہتا ہوں کہ یہ درست قدم ہے مگر اس بارے میں زیادہ باتیں بنانا ٹھیک نہیں ہو گا۔'